سورة الحج - آیت 34

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہرامّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور اسی کے فرماں بردار ہوجاؤ۔ اور اے نبی عاجزی کرنے والوں کو بشارت دیجیے۔“ (٣٤)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ ’ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا ۔ ان کے لیے ایک دن عید کا مقرر تھا ۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے ‘ ۔ سب کے سب مکے شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے ۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذکر کریں ۔ { حضور علیہ السلام کے پاس دو مینڈھے چتکبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5564) مسند احمد میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا { تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت } ۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا : { ہر بال کے بدلے ایک نیکی } ۔ دریافت کیا اور “اون“ کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : { ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3127،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں ۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں ، اللہ کی یگانگت میں ، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الانبیاء:25) ’ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ‘ ۔ سب اللہ کی توحید ، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے ۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی ۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ ، اس کے ہو کر رہو ، اس کے احکام کی پابندی کرو ، اس کی اطاعت میں استحکام کرو ۔ جو لوگ مطمئن ہیں ، جو متواضع ہیں ، جو تقوے والے ہیں ، جو ظلم سے بیزار ہیں ، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں ، مرضی مولا ، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنا دیں ، وہ مبارکباد کے قابل ہیں ۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم ، اور خوف الٰہی سے پر کر کے رب کی طرف جھک جاتے ہیں ، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں ، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” واللہ اگر تم نے صبر وبرداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کر دیئے جاؤ گے “ ۔ «وَالْمُقِیمِی» کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ لیکن ابن سمیفع نے «وَالْمُقِیمِی» پڑھا ہے اور «الصَّلَوٰۃِ» کا زبر پڑھا ہے ۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن «الصَّلَوٰۃِ» کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں ۔ سورۃ براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمدللہ ہم کر آئے ہیں ۔ «فَلِلہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ»