لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
” تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں۔ (٢٨)
دنیا اور آخرت کے فائدے دنیا اور آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے لیے آئیں ۔ اللہ کی رضا کے ساتھ ہی دنیاوی مفاد تجارت وغیرہ کا فائدہ اٹھائیں ۔ جیسے فرمایا آیت «لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰیکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّالِّیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:198) موسم حج میں تجارت کرنا ممنوع نہیں ۔ مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا : { جہاد بھی نہیں ، بجز اس مجاہد کے عمل کے جس نے اپنی جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:969) میں نے اس حدیث کو اس کی تمام سندوں کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کر دیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے { کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا اور پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں « «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» » «اﷲُ اَکْبَرُ» اور «اَلْحَمْدُ لِلہِ» بکثرت پڑھا کرو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/2:صحیح) انہی دنوں کی قسم «وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ» ۱؎ (89-الفجر:1۔2) کی آیت میں ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں آیت «وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً» ۱؎ (7-الأعراف:142) سے بھی مراد یہی دن ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ { ان دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے رہا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2452،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں بازار میں آتے اور تکبیر پکارتے ، بازار والے بھی آپ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگتے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:قبل الحدیث:970) ان ہی دس دنوں میں عرفہ کا دن ہے جس دن کے روزے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { گزشتہ اور آئندہ دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1162) ان ہی دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقر عید کا دن ہے جس کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے } ۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں ۔ جیسے کہ حدیث شریف میں ہے { یہ دس دن رمضان شریف کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں} ۔ کیونکہ نماز روزہ صدقہ وغیرہ جو رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا ہے وہ سب ان دنوں میں بھی ہوتا ہے مزید برآں ان میں فریضہ حج ادا ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان شریف کے آخری دن افضل ہیں کیونکہ انہیں میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ تیسرا قول درمیانہ ہے کہ دن تو یہ افضل اور راتیں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی افضل ہیں ۔ اس قول کے مان لینے سے مختلف دلائل میں جمع ہو جاتی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایام معلومات کی تفسیر میں ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قربانی کا دن اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ سے یہی مروی ہے اور ایک روایت سے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ بقرہ عید اور اس کے بعد کے دو دن ۔ اور ایام معدودات سے بقرہ عید اور اس کے بعد کے تین دن ۔ اس کی اسناد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تک صحیح ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں ، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی اور اس سے پہلے کے قول کی تائید فرمان باری آیت «عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ» ۱؎ (22-الحج:28) سے ہوتی ہے کیونکہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی کے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرفے کا دن بقرہ عید کا دن اور اس کے بعد کا ایک دن ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے ۔ حضرت اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مراد یوم نحر اور ایام تشریق ہیں «بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ» سے مراد اونٹ گائے اور بکری ہیں ۔ جیسے سورۃ الانعام کی آیت «ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ قُلْ ءٰالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ نَبِّـــــُٔـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:143) میں مفصل موجود ہے ۔ پھر فرمایا ’ اسے خود کھاؤ اور محتاجوں کو کھلاؤ ‘ ۔ اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اکثر بزرگوں کا مذہب ہے کہ یہ رخصت ہے یا استحباب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکالیا جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1218) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا کھا لے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ۔ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کہ برخلاف مسلمانوں کو اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں کو اس گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں کا یہ حکم آیت «وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدٰوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا» ۱؎ (5-المائدۃ:2) کی طرح ہے یعنی ’ جب تم احرام سے فارغ ہو جاؤ تو شکار کھیلو ‘ ۔ اور سورۃ الجمعہ میں فرمان ہے آیت «فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ (62-الجمعۃ:10) ’ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حکم ہے شکار کرنے کا اور زمین میں روزی تلاش کرنے کے لیے پھیل جانے کا لیکن یہ حکم وجوبی اور فرضی نہیں اسی طرح اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی ضروری اور واجب نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اس قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے دو حصے کر دئیے جائیں ایک حصہ خود قربانی کرنے والے کا دوسرا حصہ فقیر فقراء کا ۔ بعض کہتے ہیں تین کرنے چاہیئں تہائی اپنا تہائی ہدیہ دینے کے لیے اور تہائی صدقہ کرنے کے لیے ۔ پہلے قول والے اوپر کی آیت کی سند لاتے ہیں اور دوسرے قول والے آیت «وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (22-الحج:36) کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا پورا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” آیت «الْبَائِسَ الْفَقِیرَ» سے مطلب وہ بے بس انسان ہے جو احتیاج ہونے پر بھی سوال سے بچتا ہو ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو دست سوال دارز نہ کرتا ہو ، کم بینائی والا ہو “ ۔