سورة الأنبياء - آیت 41

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” آپ سے پہلے بھی رسولوں سے مذاق کیا گیا ہے مگر رسولوں کا مذاق اڑانے والے اسی چیز کے چکر میں آکر رہے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔“ (٤١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ تمہیں جو ستایا جا رہا ہے ، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے ، اس پر پریشان نہ ہونا ، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے ۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «‏‏‏‏وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰیہُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَاءَکَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:34) ‏‏‏‏ ، ’ تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی ۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں ۔ تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں ‘ ۔ پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کر رہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں ‘ ۔ «مِنَ الرَّحْمٰنِ» کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سوا ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی «مِنَ» بدل کے معنی میں ہے ۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے ۔ یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ پھر بطور انکار کے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کہ ’ کیا ان کے معبود جو اللہ کے سوا ہیں ، انہیں اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں ؟ ‘ یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔ ان کا یہ گمان محض غلط ہے ۔ بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی مدد و حفاظت کے بھی مالک نہیں ۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے ۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ ’ نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں ‘ ۔