سورة طه - آیت 131

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور نہ دراز کریں اپنی نگاہ کو دینوی زندگی کی شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ہم نے انہیں آزمانے کے لیے دنیا دی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔“ (١٣١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شکر یا تکبر؟ ان کفار کی دنیاوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ دیکھ ، یہ تو ذرا سی دیر کی چیزیں ہیں ۔ یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے انہیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر و تواضع کرتے ہیں یا ناشکری اور تکبر کرتے ہیں ؟ حقیقتاً شکر گزاروں کی کمی ہے ۔ ان کے مالداروں کو جو کچھ ملا ہے اس سے تجھے تو بہت ہی بہتر نعمت ملی ہے ۔ ہم نے تجھے سات آیتیں دی ہیں جو دوہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم عطا فرما رکھا ہے ، پس اپنی نظریں ان کے دنیاوی ساز و سامان کی طرف نہ ڈال ۔ اسی طرح اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لیے اللہ کے پاس جو مہمانداری ہے ، اس کی نہ تو کوئی انتہا ہے اور نہ اس وقت کوئی اس کے بیان کی طاقت رکھتا ہے ۔ تجھے تیرا پروردگار اس قدر دے گا کہ تو راضی رضامند ہو جائے گا ۔ اللہ کی دین بہتر اور باقی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کیا تھا اور ایک بالاخانے میں مقیم تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ ایک کھردرے بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ چمڑے کا ایک ٹکڑا ایک طرف رکھا تھا اور کچھ مشکیں لٹک رہی تھیں ۔ یہ بے سر و سامانی کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں رو دیے ؟ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسریٰ کس قدر عیش وعشرت میں ہیں اور آپ باوجود ساری مخلوق میں سے اللہ کے برگزیدہ ہونے کے کس حالت میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ! اے خطاب کے بیٹے کیا اب تک تم شک میں ہی ہو ؟ ان لوگوں کی اچھائیوں نے دنیا میں ہی جلدی کر لی ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2468) پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود قدرت اور دسترس کے دنیا سے نہایت ہی بے رغبت تھے ۔ جو ہاتھ لگتا ، اسے راہ للہ دے دیتے اور اپنے لیے ایک پیسہ بھی نہ بچا رکھتے ۔ ابن ابی حاتم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { آپ نے فرمایا مجھے تو تم پر سب سے زیادہ خوف اس وقت کا ہے کہ دنیا تمہارے قدموں میں اپنا تمام ساز و سامان ڈال دے گی ۔ اپنی برکتیں تم پر الٹ دے گی ۔ } الغرض کفار کو زینت کی زندگی اور دنیا صرف ان کی آزمائش کے لیے دی جاتی ہے ۔ اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کرو تاکہ وہ عذاب الٰہی سے بچ جائیں ، خود بھی پابندی کے ساتھ اس کی ادائیگی کرو ۔ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچالو ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے تو اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ ہم تجھ سے رزق کے طالب نہیں ۔ نماز کی پابندی کر لو ، اللہ ایسی جگہ سے روزی پہنچائے گا جو خواب و خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے لیے چھٹکارا کر دیتا ہے اور بے شان و گمان جگہ سے روزی پہنچاتا ہے ۔ تمام جنات اور انسان صرف عبادت الٰہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں ۔ رزاق اور زبردست قوتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ فرماتا ہے ہم خود تمام مخلوق کے روزی رساں ہیں ۔ ہم تمیں طلب کی تکلیف نہیں دیتے ۔ ہشام رحمہ اللہ کے والد صاحب جب امیر امراء کے مکانوں پر جاتے اور ان کا ٹھاٹھ دیکھتے تو واپس اپنے مکان پر آ کر اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ اور کہتے میرے کنبے والو ! نماز کی حفاظت کرو نماز کی پابندی کرو ۔ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تنگی ہوتی تو اپنے گھر کے سب لوگوں کو فرماتے ، اے میرے گھر والو ، نمازیں پڑھو نمازیں قائم رکھو ۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ اپنی ہر گھبراہٹ اور ہر کام کے وقت نماز شروع کر دیتے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:561/4:مرسل) ترمذی ابن ماجہ وغیرہ کی قدسی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم ! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا ، میں تیرا سینہ امیری اور بےپرواہی سے پر کر دوں گا ۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کر دوں گا اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دونگا اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2466،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جس نے اپنی تمام غور و فکر اور قصد و خیال کو اکٹھا کر کے آخرت کا خیال باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہو گیا ، اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کر لے گا ۔ اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں ، یہاں کے غم مول لے لیے ، اللہ کو اس کی مطلقا پرواہ نہ رہے گی خواہ کسی حیرانی میں ہلاک ہو جائے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4105:قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { دنیا کے غموں میں ہی ، اسی کی فکروں میں ہی مصروف ہو جانے والے کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پریشانیاں ڈال دے گا اور اس کی فقیری اس کی آنکھوں کے سامنے کر دے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے ۔ اور جو اپنے دل کا مرکز آخرت کو بنا لے گا ، اپنی نیت وہی رکھے گا ، اللہ تعالیٰ اسے ہرکام کا اطمینان نصیب فرما دے گا ۔ اس کے دل کو سیراور شیر بنا دے گا اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکروں میں آیا کرے گی ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:،قال4106 الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا دنیا و آخرت میں نیک انجام پرہیزگار لوگ ہی ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ گویا ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں ۔ وہاں ہمارے سامنے ابن طالب کے باغ کی تر کھجوریں پیش کی گئی ہیں ۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ دنیا میں بھی انجام کے لحاظ سے ہمارا ہی پلہ گراں رہے گا اور بلندی اور اونچائی ہم کو ہی ملے گی اور ہمارا دین پاک صاف ، طیب و طاہر ، کامل و مکمل ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2270)