سورة طه - آیت 105

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا۔ (١٠٥)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

پہاڑوں کا کیا ہو گا؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں ؟ ان کا سوال نقل کر کے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہو جائے گی ۔ «قاع» کے معنی ہموار صاف میدان ہے ۔ «صفصفا» اسی کی تاکید ہے اور «صفصف» کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں ۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ ، نہ اونچان رہے گی نہ نیچائی ۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز پر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جا رہی ہو گی ، نہ ادھر ادھر ہو گی نہ ٹیڑھی بان کی چلے گی ۔ کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے ۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے ۔ «أَسْمِعْ بِہِمْ وَأَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُونَنَا» ۱؎ (19-مریم:38) اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے ۔ اندھیری جگہ حشر ہو گا ۔ آسمان لپیٹ لیا جائے گا ، ستارے جھڑ پڑیں گے ، سورج چاند مٹ جائے گا ۔ «مٰہْطِعِینَ إِلَی الدَّاعِ ۖ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ » ۱؎ (54-القمر:8) آواز دینے والے کی آواز پر سب چل کھڑے ہوں گے ۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب بارگاہ الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی ۔ بالکل سکون وسکوت ہو گا ، صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی ۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور بااجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی ۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب ۔ جیسے ارشاد ہے ، « یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ۚ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ » ۔ (11-ہود:105) ’ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے ، کسی کی مجال نہ ہو گی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے ۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے ۔‘