سورة الكهف - آیت 19

وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اسی طرح ہم نے انھیں دوبارہ اٹھایا، تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں؟ کہنے لگے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے رہے، دوسروں نے کہا تمھارا رب خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے رہے ہو۔ اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کر شہر کی طرف بھیجو کہ دیکھے اس میں جو کھانے کے لحاظ سے زیادہ فہم القرآن ربط کلام : اصحاب کہف کا اٹھایا جانا، ان کا ایک دوسرے سے اپنے قیام کے بارے میں پوچھنا اور اپنی قوم کے ظلم سے ڈرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ یہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ یہاں کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کو منکرین آخرت کے لیے حجت قرار دیا ہے۔ اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اٹھایا، جونہی وہ لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بھائی! ہم کتنی دیر یہاں ٹھہرے رہے ہیں ؟ ہر کسی نے سورج کا حساب لگا کر بتایا کہ ہم چند گھنٹے یا ایک دن سوئے رہے ہیں۔ اس اندازے کی دو وجہ تھیں۔ جب وہ سورج کو دیکھتے تو انہیں گمان ہوتا کیونکہ سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی ہے اس بناء پر کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ ہم چند گھنٹے سوئے ہیں۔ لیکن جب اپنی طبیعت کے سکون اور جسمانی آرام پر توجہ دیتے تو کہتے ہیں نہیں ہم ایک دن سوئے ہیں۔ گویا کہ ان کا اس بات پر اتفاق نہ ہوسکا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی برادرانہ بحث کو من وعن اسی طرح نقل فرمایا ہے۔ اس کے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی اور انہوں نے فیصلہ کیا۔ اپنے میں سے ایک ساتھیکو کچھ رقم دے کر قریب کے شہر میں بھیجاجائے اور اسے سمجھایا کہ وہ صاف ستھراکھا نا لانا اور آنے جانے میں بھی احتیاط کرنا تاکہ ہمارے بارے میں کسی شخص کو کوئی خبر نہ ہونے پائے اگر لوگوں کو خبر پاکیزہ ہے، پھر تمھارے پاس کھانا لائے نرم رویہ اختیار کرے اور تمھارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔“ (١٩) ”

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ، کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا ۔ آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لیے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لیے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ، کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت «وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ» ( 24- النور : 21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی» ( 87- الأعلی : 14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں «زکا الزرع» اور جیسے شاعر کا قول ہے «قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ» «واسبع ازکی من ثلاث واطیب» پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے ۔ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لیے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہیئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے ۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے کہ یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لیے محال ہو جائے گا ۔