سورة ابراھیم - آیت 47

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس آپ ہرگز گمان نہ کریں کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا ہے۔ یقیناً اللہ سب پر غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔“ (٤٧)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

انبیاء کی مدد اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو مقرر اور موکد کر رہا ہے کہ ’ دنیا آخرت میں جو اس نے اپنے رسولوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ کبھی اس کے خلاف کرنے والا نہیں ۔ اس پر کوئی اور غالب نہیں وہ سب پر غالب ہے اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں اس کا چاہا ہو کر رہتا ہے ۔ وہ کافروں سے ان کے کفر کا بدلہ ضرور لے گا قیامت کے دن ان پر حسرت و مایوسی طاری ہوگی ۔ اس دن زمین ہوگی لیکن اس کے سوا اور ہو گی اسی طرح آسمان بھی بدل دئے جائیں گے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ایسی سفید صاف زمین پر حشر کئے جائیں گے جیسے میدے کی سفید ٹکیا ہو جس پر کوئی نشان اور اونچ نہ ہو گی } ۔ (صحیح بخاری:6521) مسند احمد میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” سب سے پہلے میں نے ہی اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پل صراط پر } } ۔ (مسند احمد:35/6:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ { تم نے وہ بات پوچھی کہ میری امت میں سے کسی اور نے یہ بات مجھ سے نہیں پوچھی } } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20972:ضعیف و منقطع) اور روایت میں ہے کہ { یہی سوال مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا «وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:67) کے متعلق تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا تھا } ۔ (مسند احمد:116/6:صحیح) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں { میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ایک یہودی عالم آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر سلام علیک کہا میں نے اسے ایسے زور سے دھکا دیا کہ قریب تھا کہ گر پڑے اس نے مجھ سے کہا تو نے مجھے دھکا دیا ؟ میں نے کہا بے ادب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہتا ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا ہے اس نے کہا ہم تو جو نام ان کا ان کے گھرانے کے لوگوں نے رکھا ہے اسی نام سے پکاریں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرے خاندان نے میرا نام محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہی رکھا ہے } ۔ یہودی نے کہا سنیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات دریافت کرنے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر میرا جواب تجھے کوئی نفع بھی دے گا ؟ } اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر پھراتے ہوئے فرمایا کہ { اچھا دریافت کرلو } ۔ اس نے کہا سب سے پہلے پل صراط سے پار کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا : { مہاجرین فقراء } ۔ اس نے پوچھا انہیں سب سے پہلے تحفہ کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مچھلی کی کلیجی کی زیادتی } ۔ اس نے پوچھا اس کے بعد انہیں کیا غذا ملے گی ؟ فرمایا : { جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت کے اطراف میں چرتا چگتا رہا تھا } ۔ اس نے پوچھا پھر پینے کو کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جنتی نہر سلسبیل کا پانی } ۔ یہودی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب جواب برحق ہیں ۔ اچھا اب میں ایک بات اور پوچھتا ہوں جسے یا تو نبی جانتا ہے یا دنیا کے اور دو ایک آدمی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { کیا میرا جواب تجھے کچھ فائدہ دے گا ؟ } اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ بچے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مرد کا خاص پانی سفید رنگ کا ہوتا ہے اور جب عورت کا خاص پانی زرد رنگ کا ۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں تو اگر مرد کا پانی غالب آجائے تو بحکم الٰہی لڑکا ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو اللہ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے } ۔ یہودی نے کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور یقیناً آپ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر وہ وآپس چلا گیا ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جواب سکھا دیا } ۔ (صحیح مسلم:315) ابن جریر طبری میں ہے کہ { یہودی عالم کے پہلے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس وقت مخلوق اللہ کی مہمانی میں ہوگی پس اس کے پاس کی چیز ان سے عاجز نہ ہوگی } } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20976:ضعیف) حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کہتے ہیں ” یہ زمین بدل دی جائے گی اور زمین سفید میدے کی ٹکیا جیسی ہوگی جس میں نہ کوئی خون بہا ہوگا جس پر نہ کوئی خطا ہوئی ہوگی آنکھیں تیز ہوں گی داعی کی آواز کانوں میں ہوگی سب ننگے پاؤں ننگے بدن کھڑے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ پسینہ مثل لگام کے ہو جائے گا “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں ہے کہ { سفید رنگ کی وہ زمین ہوگی جس پر نہ خون کا قطرہ گرا ہوگا نہ اس پر کسی گناہ کا عمل ہوا ہوگا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:249/13:صحیح موقوفاً) اسے مرفوع کرنے والا ایک ہی راوی ہے یعنی جریر بن ایوب اور وہ قوی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا { جانتے ہو میں نے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟ } انہوں نے کہا اللہ ہی کو علم ہے اور اس کے رسول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۱؎ (14-ابراھیم:48) کے بارے میں یاد رکھو وہ اس دن چاندی کی طرح سفید ہوگی } ۔ جب وہ لوگ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ؟ انہوں نے کہا کہ سفید ہو گی جیسے میدہ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20947:ضعیف) اور بھی سلف سے مروی ہے کہ چاندی کی زمین ہو گی ۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” آسمان سونے کا ہوگا “ ۔ ابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ باغات بنا ہوا ہوگا “ ۔ محمد بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں ” زمین روٹی بن جائے گی کہ مومن اپنے قدموں تلے سے ہی کھالیں “ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ” زمین بدل کر روٹی بن جائے گی “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قیامت کے دن ساری زمین آگ بن جائے گی اس کے پیچھے جنت ہوگی جس کی نعمتیں باہر سے ہی نظر آ رہی ہوں گی لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ابھی حساب کتاب شروع نہ ہوا ہو گا ۔ انسان کا پسینہ پہلے قدموں میں ہی ہو گا پھر بڑھ کر ناک تک پہنچ جائے گا بوجہ اس سختی اور گھبراہٹ اور خوفناک منظر کے جو اس کی نگاہوں کے سامنے ہے “ ۔ حضرت کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ” آسمان باغات بن جائیں گے سمندر آگ ہو جائیں گے زمین بدل دی جائے گی “ ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے { سمندر کا سفر صرف غازی یا حاجی یا عمرہ کرنے والے ہی کریں ۔ کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے یا آگ کے نیچے سمندر ہے } ۔ (سنن ابوداود:2489،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جداً) صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اللہ تعالیٰ زمین کو بسیط کرکے عکاظی چمڑے کی طرح کھینچے گا اس میں کوئی اونچ نِیچ نظر نہ آئے گی پھر ایک ہی آواز کے ساتھ تمام مخلوق اس نئی زمین پر پھیل جائے گی } ۔ پھر ارشاد ہے کہ { تمام ہے کہ تمام مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے سامنے روبرو ہو جائے گی وہ اللہ جو اکیلا ہے اور جو ہر چیز پر غالب ہے سب کی گردنیں اس کے سامنے خم ہیں اور سب اس کے تابع فرمان ہیں } ۔