سورة ابراھیم - آیت 35

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب ! اس شہر کو امن والا بنا دے۔ اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچانا۔“ (٣٥) ”

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

حرمت وعظمت کا مالک شہر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ‘ ۔ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:67) ۔ «إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ» «فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ۱؎ (3-آل عمران:96-97) ’ سب سے پہلا با برکت اور با ہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے ، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا ، امن و امان میں آ گیا ‘ ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ ” اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا “ ۔ اسی لیے فرمایا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ» ۱؎ (14-ابراھیم:39) ’ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے ‘ ۔ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ علیہ السلام نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے «رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» (2-البقرۃ:126) ۔ پس اس دعا میں «بَلَدَ» پر لام نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ «بلد» کو معرف بلام لائے ۔ سورۃ البقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ پھر آپ علیہ السلام نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کرے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ { حضور علیہ السلام نے خلیل اللہ کا یہ قول اور روح اللہ کا قول آیت «اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» (5-المائدۃ:118) ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔ (صحیح مسلم:202)