وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
’ اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو اپنے مال کو پایا جو ان کو واپس کردیا گیا، کہنے لگے اے ہمارے باپ ! ہمیں کیا چاہیے ؟ یہ ہمارا مال ہمیں واپس کردیا گیا ہے اور ہم گھر والوں کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا ماپ زیادہ لائیں گے، یہ بہت تھوڑا ماپ ہے۔“ (٦٥)
. یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بھائیوں کی واپسی کے وقت اللہ کے نبی علیہ السلام نے ان کا مال ومتاع ان کے اسباب کے ساتھ پوشیدہ طور پر واپس کر دیا تھا ۔ یہاں گھر پہنچ کر جب انہوں نے کجاوے کھولے اور اسباب علیحدہ علیحدہ کیا تو اپنی چیزیں جوں کی توں واپس شدہ پائیں تو اپنے والد سے کہنے لگے لیجئے اب آپ کو اور کیا چاہیئے ۔ اصل تک تو عزیز مصر نے ہمیں واپس کر دی ہے اور بدلے کا غلہ پورا پورا دے دیا ہے ۔ اب تو آپ بھائی صاحب کو ضرور ہمارے ساتھ کر دیجئیے تو ہم خاندان کے لیے غلہ بھی لائیں گے اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ اور بھی مل جائے گا کیونکہ عزیز مصر ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ ہی دیتے ہیں ۔ اور آپ کو انہیں ہمارے ساتھ کرنے میں تامل کیوں ہے ؟ ہم اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت پوری طرح کریں گے ۔ یہ ناپ بہت ہی آسان ہے یہ تھا اللہ کا کلام کا تتمّہ اور کلام کو اچھا کرنا ۔ یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاؤ گے میں اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کا نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ نہ کرے تم سب ہی گیر لیے جاؤ اور چھوٹ نہ سکو ۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر مضبوط عہدو پیمان کیا ۔ اب یعقوب علیہ السلام نے یہ فرما کر کہ ہماری اس گفتگو کا اللہ وکیل ہے ۔ اپنے پیارے بچے کو ان کے ساتھ کر دیا ۔ اس لیے کہ قحط کے مارے غلے کی ضرورت تھی اور بغیر بھیجے چارہ نہ تھا ۔