قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
اس نے کہا تمھارے پاس کھانا نہیں آئے گا جو تمھیں دیا جاتا ہے مگر میں کھانا آنے سے پہلے تمھیں اس کی تعبیر بتاؤں گا۔ یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۔ یقیناً میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے بھی منکرہیں۔“ (٣٧)
جیل خانہ میں خوابوں کی تعبیر کا سلسلہ اور تبلیغ توحید حضرت یوسف علیہ السلام اپنے دونوں قیدی ساتھیوں کو تسکین دیتے ہیں کہ میں تمہارے دونوں خوابوں کی صحیح تعبیر جانتا ہوں اور اس کے بتانے میں مجھے کوئی بخل نہیں ۔ اس کی تعبیر کے واقعہ ہونے سے پہلے ہی میں تمہیں وہ بتا دوں گا ۔ یوسف علیہ السلام کے اس فرمان اور اس وعدے سے تو یہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام ، تنہائی کی قید میں تھے کھانے کے وقت کھول دیا جاتا تھا اور ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اس لیے آپ علیہ السلام نے ان سے یہ وعدہ کیا اور ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے تھوڑی تھوڑی کر کے دونوں خوابوں کی پوری تعبیر بتلائی گی ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اثر مروی ہے گو بہت غریب ہے ۔ پھر فرماتے ہیں مجھے یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرما گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ میں نے ان کافروں کا مذہب چھوڑ رکھا ہے جو نہ اللہ کو مانیں نہ آخرت کو برحق جانیں میں نے اللہ کے پیغمبروں کے سچے دین کو مان رکھا ہے اور اسی کی تابعداری کرتا ہوں ۔ خود میرے باپ دادا اللہ کے رسول تھے ۔ ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب علیہ الصلواۃ والسلام ۔ فی الواقع جو بھی راہ راست پر استقامت سے چلے ہدایت کا پیرو رہے ۔ اللہ کے رسولوں کی اتباع کو لازم پکڑ لے ، گمراہوں کی راہ سے منہ پھیر لے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس کے دل کو پرنور اور اس کے سینے کو معمور کر دیتا ہے ۔ اسے علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے ۔ اسے بھلائی میں لوگوں کا پیشوا کر دیتا ہے کہ اور دنیا کو وہ نیکی کی طرف بلاتا رہتا ہے ۔ ہم جب کہ راہ راست دکھا دئیے گئے توحید کی سمجھ دے دئیے گئے شرک کی برائی بتا دئیے گئے ۔ پھر ہمیں کیسے یہ بات زیب دیتی ہے ؟ کہ ہم اللہ کے ساتھ اور کسی کو بھی شریک کر لیں ۔ یہ توحید اور سچا دین اور یہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی یہ خاص اللہ کا فضل ہے جس میں ہم تنہا نہیں بلکہ اللہ کی اور مخلوق بھی شامل ہے ۔ ہاں ہمیں یہ برتری ہے کہ ہماری جانب یہ براہ راست اللہ کی وحی آئی ہے ۔ اور لوگوں کو ہم نے یہ وحی پہنچائی ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں ۔ اللہ کی اس زبردست نعمت کی جو اللہ نے ان پر رسول بھیج کر انعام فرمائی ہے ناقدری کرتے ہیں «بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ( 14-ابراھیم : 28 ) اور اسے مان کر نہیں رہتے بلکہ رب کی نعمت کے بدلے کفر کرتے ہیں ۔ اور خود مع اپنے ساتھیوں کے ہلاکت کے گھر میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ دادا کو بھی باپ کے مساوی میں رکھتے ہیں اور فرماتے جو چاہے حطیم میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے دادا دادی کا ذکر نہیں کیا دیکھو یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا میں نے اپنے باپ ابراہیم اسحاق اور یعقوب علیہ الصلاۃ و السلام کے دین کی پیروی کی ۔