فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ
” وہ جو بد بخت ہوئے سو وہ آگ میں ہوں گے ان کے لیے اس میں چیخنا چلانا اور دھاڑنا ہے۔“ (١٠٦) ”
عذاب یافتہ لوگوں کی چیخیں گدھے کے چیخنے میں جیسے زیر و بم ہوتا ہے ایسے ہی ان کی چیخیں ہوں گی ۔ یہ یاد رہے کہ عرب کے محاوروں کے مطاق قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ وہ ہمیشگی کے محاورے کو اسی طرح بولا کرتے ہیں کہ یہ ہمیشگی والا ہے جب تک آسمان و زمین کو قیام ہے ۔ یہ بھی ان کے محاورے میں ہے کہ یہ باقی رہے گا جب تک دن رات کا چکر بندھا ہوا ہے ۔ پس ان الفاظ سے ہمیشگی مراد ہے نہ کہ قید ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمین و آسمان کے بعد دار آخرت میں ان کے سوا اور آسمان و زمین ہو پس یہاں مراد جنس ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” ہر جنت کا آسمان و زمین ہے “ ۔ اس کے بعد اللہ کی منشاء کا ذکر ہے جیسے «النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیہَا إِلَّا مَا شَاءَ اللہُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:128) میں ہے ۔ اس استثناء کے بارے میں بہت سے قول ہیں جنہیں جوزی نے زاد المیسر میں نقل کیا ہے ۔ ابن جریر نے خالد بن معدان ، ضحاک ، قتادہ اور ابن سنان رحمہ اللہ علیہم کے اس قول کو پسند فرمایا ہے کہ ” موحد گنہگاروں کی طرف استثناء عائد ہے بعض سلف سے اس کی تفسیر میں بڑے ہی غریب اقوال وارد ہوئے ہیں ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:635/3:) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے “ ۔