قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں سو ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیرے دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا چہرہ اسی طرف کرلیا کریں۔ اہل کتاب جانتے ہیں کہ یہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے
خشوع و خضوع ضروری ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالآخر آیت «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلٰوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ» ( البقرہ : 144 ) نازل ہوئی اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا کہ «وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلٰوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ إِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ» ( البقرۃ : 115 ) مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور فرمایا جدھر تمہارا منہ ہو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اور فرمایا کہ اگلا قبلہ امتحاناً تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:103/1) اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد الحرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل علیہ السلام نے امامت کرائی ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مسجد الحرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام رحمہ اللہ علیہم کا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے ۔ (مستدرک حاکم:2692) ابوالعالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:107/1) ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔ (سنن ترمذی:342 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیت اللہ مسجد الحرام والوں کا قبلہ اور مسجد اہل حرام کا قبلہ اور تمام زمین والوں کا حرام قبلہ ہے خواہ مشرق میں ہوں خواجہ مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے ۔ (بیھقی9/2-10:ضعیف) ابونعیم میں بروایت براء رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی ۔ یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھر گئے ۔ (صحیح بخاری:4486) عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے ۔ (تفسیر عبد الرزاق:1354) نسائی میں ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم صبح کے وقت مسجد نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلٰوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ» ( البقرہ : 144 ) تلاوت فرمائی میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہونے منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چنانچہ ہم ایک طرف ہو گئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی ۔(نسائی فی السنن الکبریٰ:11004،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ پہلی نماز جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطیٰ ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قباء کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی ۔ ابن مردویہ میں روایت نویلہ بنت مسلم رضی اللہ عنہا موجود ہے کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی ۔ چنانچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی ، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں ، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے ۔ (طبرانی کبیر:530/24:ضعیف) ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے ۔ (مسند ابویعلیٰ:1509) پھر ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کر لیا کرو ۔ ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کر لے اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کر لے ۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی ، احمد اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہو گا بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لیے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ پر نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور التحیات کے وقت اپنی گود کی طرف پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بے خبر نہیں ۔