وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
” اور نہیں ہوتے آپ کسی حالت میں اور نہ اس کی طرف سے آنے والے قرآن میں سے کچھ تلاوت کرتے ہیں اور نہ تم کوئی عمل کرتے ہو مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں، جب تم اس میں شروع ہوتے ہو اور تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب میں موجود ہے۔“ (٦١)
اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کے تمام احوال ہر وقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، ساری مخلوق کے کل کام اس کے علم میں ہیں ، اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ۔ سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ وہ خشکی و تری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ہر پتے کے جھڑنے کی اسے خبر ہے ۔ زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہو ، جو تر و خشک چیز ہو ، سب کتاب مبین میں موجود ہے ‘ ۔ الغرض درختوں کا ہلنا ، جمادات کا ادھر ادھر ہونا ، جانداروں کا حرکت کرنا ، کوئی چیز روئے زمین کی اور تمام آسمانوں کی ایسی نہیں ، جس سے علیم و خبیر اللہ بے خبر ہو ۔ فرمان ہے «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِن شَیْءٍ ثُمَّ إِلَیٰ رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ» ۱؎ (6-الانعام:38) ایک اور آیت میں ہے کہ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ھود:6) زمین کے ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے ۔ جب کہ درختوں ، ذروں جانوروں اور تمام تر و خشک چیزوں کے حال سے اللہ عزوجل واقف ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بندوں کے اعمال سے وہ بے خبر ہو ۔ جنہیں عبادت رب کی بجا آوری کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے «وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ الَّذِی یَرَاکَ حِینَ تَقُومُ وَتَقَلٰبَکَ فِی السَّاجِدِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:217-219) ’ اس ذی عزت بڑے رحم و کرم والے اللہ پر تو بھروسہ رکھ جو تیرے قیام کی حالت میں تجھے دیکھتا رہتا ہے سجدہ کرنے والوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھ رہا ہے ‘ ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ ’ تم سب ہماری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو ‘ ۔ { جبرائیل علیہ السلام نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ { اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے یقیناً دیکھ ہی رہا ہے } } ۔ (صحیح بخاری:50)