سورة التوبہ - آیت 123

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ان کفار سے لڑو جو تمھارے آس پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور جان لو کہ بے شک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔“ (١٢٣)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اسلامی مرکز کا استحکام اولین اصول ہے اسلامی مرکز کے متصل جو کفار ہیں ، پہلے تو مسلمانوں کو ان سے نمٹنا چاہیئے ۔ اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا ، یہاں غلبہ پاکر مکہ ، مدینہ ، طائف ، یمن ، یمامہ ، ہجر خیبر ، حضر موت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی ۔ جو اول تو جزیرہ عرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہنے والے اہل کتاب تھے ۔ تبوک تک پہنچ کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا ۔ یہ واقعہ ٩ھ کا ہے ۔ دسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے ۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آپ کے بعد آپ کے نائب ، دوست اور خلیفہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے ۔ اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ نے انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا ۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے ۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی ۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی ، جاہلوں پر حق واضح کیا ۔ امانت رسول ادا کی ۔ اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہی اسلامی لشکروں کو سر زمین روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں ۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں ۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمین نے ہر طرف فتح عطا فرمائی ۔ کسری اور قیصر خاک میں مل گئے ۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے ۔ اور جو خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے تھے وہ پوری ہوئی ۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی ۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی ۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے ۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی ۔ قریب و بعید سے بھرپور خزانے دربار فاروق میں آئے ۔ اور شرعی طور پر حکم الٰہی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہونے لگے ۔ اس پاک نفس ، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المؤمنین شہید الدار سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا ۔ اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا ۔ اسلام کے لمبے اور زور آور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا ۔ بندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں ۔ حجت ربانی ظاہر تھی ، کلمہ الٰہی غالب تھا ۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی ۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے ۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے ۔ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو ۔ جیسے فرمان ہے «فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یٰحِبٰہُمْ وَیُحِبٰوْنَہٗٓ» ۱؎ (5-المآئدہ:54) الخ ، یعنی اللہ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اس کے محبوب ہوں اور وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہوں ۔ مومنوں کے سامنے تو نرم ہوں اور کافروں پر ذی عزت ہوں ۔ اس طرح اور آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ والے آپس میں نرم دل ہیں ۔ کافروں پر سخت ہیں ۔ ۱؎ (48-الفتح:29) ارشاد ہے «یٰٓاَیٰھَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (9-التوبہ:73) یعنی اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ۔ حدیث میں ہے کہ میں «الضحوک» ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور «قتال» ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاوروں کے ساتھ ہے ۔ یعنی کافروں سے لڑو ، بھروسہ اللہ پر رکھ ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے ، اس کی فرماں برداری کرتے رہو گے ، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہارے ساتھ رہے گی ۔ دیکھ لو ! خیر کے تینوں زمانوں تک ملسمانوں کی یہی حالت رہی ۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے ۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہو گئی ۔ فتنے فساد پڑ گئے ، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی ۔ تو وہ بات نہ رہی ، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان پر اُٹھیں ۔ وہ اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے ، وہ ادھرادھر سے نوالے لینے لگے ۔ آخر دشمن اور بڑھے ، سلطنتیں کچلنی شروع کیں ، ملک فتح کرنے شروع کئے آہ ! اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے ۔ تاہم جو بادشاہ جس قدر اللہ سے ڈرنے والا ہو اسی قدر اللہ کی مدد نے اس کا ساتھ دیا ۔ اب بھی اللہ سے امید اور دعا ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے ۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو ۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے ۔ وہ اللہ کریم وجواد ہے ۔