سورة التوبہ - آیت 118

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انہوں نے یقین کرلیا اللہ کے سوا کہیں پناہ گاہ نہیں پھر اللہ نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقیناً اللہ ہی ہے توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (١١٨) ”

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبیداللہ جو آپ کے نابینا ہو جانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا ، لے آیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں ” میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا ۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں ، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ، ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھہر گئی ۔ تو چونکہ یہ لڑائی بیخبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہو سکا ، اس کے بجائے الحمداللہ میں لیلۃالعقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی ۔ اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے ۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے ۔ اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی ۔ اس وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں ۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا ، سفر بہت دور دراز کا تھا ، دشمن بڑی تعداد میں تھا ، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کر لیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آ سکے ۔ پس کوئی بازپرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا ۔ ہاں اللہ کی وحی آ جائے یہ تو بات ہی اور ہے اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے ، سائے بڑھے ہوئے تھے ۔ مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیاریوں میں تھے ، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کر لوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا ۔ اور کہتا کوئی بات نہیں ، روپیہ ہاتھ تلے ہے ، کل خرید لوں گا اور تیاری کر لوں گا ۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام ، صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آ گیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں ۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا ۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے ۔ میں نے کہا خیر چلے گئے اور کئی دن ہو گئے تو کیا ہوا میں تیز چل کر جا ملوں گا ؟ لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہو سکا ۔ ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا ۔ اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا کیا ؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا : ” اسے تو اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے “ ۔ یہ سن کر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” آپ یہ درست نہیں فرما رہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا ۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا ۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے شریف کے قریب آگئے تو میرے دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا ۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے ۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے ۔ پس میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا ۔صاف صاف سچ سچ بات کہ دوں گا ۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسبِ عادت پہلے مسجد میں آئے ، دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والےآنے لگے اور عذر معذرت کرنے لگے ۔ یہ لوگ اسی 80 سے کچھ اوپر تھے ۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد الہٰ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لئے استغفار کرتے ۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا ۔ آپ نے غصے سے تبسم فرمایا اورر مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا ۔ آپ نے فرمایا: ” تم کیسے رک گئے ؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی “ ۔ میں نے کہا : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا ۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں ۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر آج جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما دے کر پھر مجھ سے ناراض کر دے ۔ اور آج سچ کی بنا پر اگر آپ مجھ سے بگڑیں تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے “ ۔ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سچ تو یہ ہے کہ واللہ ! مجھے کوئی عذر نہ تھا ۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرصت تھی ، اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہے تو یہ سچا ۔ اچھا تم جاؤ اللہ تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہو گا “ ۔ میں کھڑا ہو گیا ، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی ۔ لیکن تعجب ہے کہ تو نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا ۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کر دوں ۔ پھر میں نے پوچھا : ” کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے “ ؟ انہوں نے کہا : ” ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے “ ۔ میں نے کہا : ” وہ کون کون ہیں “ ؟ انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور میں گھر چلا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا ۔ لوگ ہم سے الگ ہو گئے ، کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہونے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں ہوں ۔ پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں ۔ وہ دونوں بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھ رہے ، باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا ۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبعیت والا تھا ۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا ، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا ۔ مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا ۔ نماز کے بعد جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب میں آپ کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں ؟ پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کن انکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا ۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا ، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے ۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا ۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا ۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ ! انہوں نے جواب نہ دیا ۔ میں نے کہا : ” ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا میں اللہ ، رسول سے محبت رکھتا ہوں “ ؟ اس نے پھر خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول کو ذیادہ علم ہے “ ۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا ۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت ہی غمگین ہو کر میں پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا ۔ میں بازار جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینہ میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ کوئی مجھے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا پتہ بتا دے ۔ لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا ۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی ۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ۔ ہم ہر طرح کی خدمت گزاریوں کے لیے تیار ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے ۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا ۔ چالیس راتیں جب گزر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آ رہا ہے اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو ۔ میں نے پوچھا : ” یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں “ ؟ اس نے کہا : ” نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں “ ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا ۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کر دے ۔ ہاں سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ” میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں ، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں “ ۔ آپ نے فرمایا : ” اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں “ ۔ انہوں نے کہا : ” واللہ ! ان میں تو حرکت کی قوت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں “ ۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کر لو جتنی سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے ملی ہے ۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہوں گا ۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں ؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں ۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے ۔ اور ہم سے سلام کلام بند ہونے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں ۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی ۔ اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا ، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ خوش ہو جا ۔ واللہ ! میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آ گئی ۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں ۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آ رہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آ گئی ۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ ! اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا ۔ دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے نکلا ۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے ۔ کہ کعب رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو ۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی ۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے ۔ کعب طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے ۔ جب میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا ، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا ۔ میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا ۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے ۔ اس کے رسول کے سپرد ہے ۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا ۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی ۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اور جو عمر باقی ہے ، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے ۔ اللہ رب العزت نے «لَّقَد تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ» ( 9-التوبہ : 117 ) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں ۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہو جاتا ۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا ۔ فرمایا«سَیَحْلِفُونَ بِ اللہِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْہُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْہُمْ ۖ إِنَّہُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَرْضَیٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ » ( 9- التوبۃ : 95 ، 96 ) یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو ۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا ۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں ۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا ۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائے تھے ، ان سے دوبارہ بیعت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا ۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ۔ اسی لیے آیت کے الفاظ«وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا» ہیں ۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ مؤخر کر دینا ہے ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ الحمداللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے ۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے ۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے ۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو کعب کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے ۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم ۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی ۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنو سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہو جاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگو سچائی کو لازم کر لو ، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے ۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں ۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو ؟ بقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سچوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بیرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ ۔