وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
” اور دیہاتیوں میں سے کئی بہانے بنانے والے آئے تاکہ انہیں اجازت دی جائے اور وہ لوگ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا جلد ہی انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔“ (٩٠)
جہاد اور معذور لوگ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آ آ کر اپنی کمزور ضعیفی ، بےطاقتی بیان کر کے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں ۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں « وَجَاۤءَ الْـمُ۔عْزِرُوْنَ» ہے یعنی اہل عذر لوگ ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے ۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے اسی لیے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے ۔ لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا وعدہ ان ہوا جو بیٹھے رہی رہے ۔