سورة الانفال - آیت 25

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً انہی لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنہوں نے خاص طور پر تم میں سے ظلم کیا ہوگا اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت سز ادینے والاہے۔“ (٢٥)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

برائیوں سے نہ روکنا عذاب الٰہی کا سبب ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے کہ اس امتحان اور اس محنت اور فتنے کا خوف رکھو جو گنہگاروں بدکاروں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ اس بلاء کی وبا عام ہو گی ۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا کہ اے ابوعبداللہ تمہیں کون سی چیز لائی ہے ؟ تم نے مقتول خلیفہ کو دھوکہ دیا پھر اس کے خون کے بدلے کی جستجو میں تم آئے اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس آیت «وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لَّا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُمْ خَاصَّۃً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ ( 8-الانفال : 25 ) ، کو پڑھتے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے اہل ہیں یہاں تک کہ یہ واقعات رونما ہوئے۔ ۱؎ (مسند احمد:165/1:جید) اور روایت میں ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہم اس آیت سے ڈرا دئے گئے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے ساتھ مخصوص کر دیئے گئے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت خاصتاً اہل بدر کے بارے میں اتری ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپس میں خوب لڑے بھڑے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مراد اس سے خاص اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرما رہا کہ وہ آپس میں کسی خلاف شرع کام کو باقی اور جاری نہ رہنے دیں ۔ ورنہ اللہ کے عام عذاب میں سب پکڑ لیے جائیں گے ۔ یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ حکم تمہارے لیے بھی ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص فتنے میں مشغول ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ« إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ» ۱؎ ( 64-التغابن : 15 ) ’ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں پس تم میں سے جو بھی پناہ مانگے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ہر گمراہ کن فتنے سے پناہ طلب کر لیا کرے ۔‘ صحیح بات یہی ہے کہ اس فرمان میں صحابہ اور غزوی صحابہ رضی اللہ عنہم سب کو تنبیہ ہے گو خطاب انہی سے ہے اسی پر دلالت ان احادیث کی ہے جو فتنے سے ڈرانے کیلئے ہیں گو ان کے بیان میں ائمہ کرام کی مستقل تصانیف ہیں لیکن بعض مخصوص حدیثیں ہم یہاں بھی وارد کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فرمائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے۔} ۱؎ (مسند احمد:192/4:حسن لغیرہ) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے ۔ اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2129،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہو جاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا۔ ۱؎ (مسند احمد:390/5:ضعیف) نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے ، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا ۔نیچے والے پانی لینے کے لیے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے اور یہ بھی۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2686) ایک اور حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ملے گی۔ ۱؎ (مسند احمد:294/6:صحیح) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہو گا سزا میں سب شامل رہیں گے۔ } ( مسند و ابوداؤد وغیرہ ) اور روایت میں ہے کہ { کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس برائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا ۔} مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عذاب عام ہو گا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔}