سورة الانعام - آیت 8

وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کردیا جاتا، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ (٨)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : کفار کا دوسرا مطالبہ : سورۂ یونس آیت 2میں بیان ہوا ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے انبیاء کو کیوں مبعوث کیا ہے؟ سورۃ الفرقان کی آیت 7 میں کفار کے اس تعجب کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک فرشتہ نازل کرتا جو ہر مقام پر اس کی تائید کرتا۔ یہاں بھی کفار کے اسی مطالبہ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ جس کے دو جواب دیے گئے ہیں کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے اور اسکے مقابلہ میں لوگ انکار کرتے تو ان کو کبھی مہلت نہ دی جاتی۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر فرشتہ کو رسول بنایا جاتا تو وہ بھی انسان کی شکل میں ہی رسول ہوتا اگر ہم ایسا کرتے تو یہ لوگ یہی یاوا گوئی کرتے کہ ہم انسان ہیں اور ہمارے لیے ہمارے جیسا انسان ہی رسول ہونا چاہیے تھا۔ انسانوں میں رسول بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح اپنی حاجات کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے بہترین نمونہ ثابت ہوں، تاکہ لوگ یہ بہانہ نہ بنا سکیں کہ تم تو فرشتے ہو جبکہ ہم حاجات میں پھنسے ہوئے انسان ہیں لہٰذا ہم شریعت پر کس طرح عمل پیراہو سکتے ہیں؟ اس بہانے کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے وہ سارے بنی نوع انسان میں سے تھے تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔ افسوس آج مسلمانوں میں کئی لوگ نبی (ﷺ) کو فرشتہ یعنی نوری مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو صریح طور پر قرآن مجید کی آیات کے الٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین ﴿أَکَان للنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ اٰمَنُواْ أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عندَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکَافِرُونَ إِنَّ ہٰذَا لَسٰاحِرٌ مُّبِینٌ﴾[ یونس :2] ” کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ انہیں میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی کی کہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور ایمان لانے والوں کو یہ خوشخبری دے کہ ان کے رب کے ہاں ان کی حقیقی عزت اور مرتبہ ہے تو کافروں نے کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے۔“ ﴿وَقَالُوا مالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا﴾ [ الفرقان :7] ” وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھر تا ہے اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو ڈرایا کرتا ؟“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ہی رسول منتخب فرماتا رہا ہے۔ 2۔ اللہ کی آیات آجانے کے بعد لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔ 3۔ کھلے معجزے کا انکار کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر با لقرآن : تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر اور بندے تھے: 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) 2۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل :43) 3۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (الکہف : 110، حٰم السجدۃ:6) 4۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف :109) 5۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء :34) 6۔ کفار کو ان کے رسولوں نے کہا ہم تمہاری طرح بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) 7۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء :186)