سورة المآئدہ - آیت 17

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح بن مریم اللہ ہے فرمادیجئے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلہ میں کچھ اختیار رکھتاہو اگر وہ ارادہ کرے کہ مسیح بن مریم کو اور اس کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب کو ہلاک کر دے، آسمانوں اور زمین کی اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔“ (١٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : یکے بعد دیگرے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔ درمیان میں رسول کریم (ﷺ) کی تشریف آوری اور کتاب مبین کا مقصد بیان کرنے کے بعد اب پھر عیسائیوں کے عقیدہ کی کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ قرآن مجید یہ حقیقت منکشف کرتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوجاتی ہے تو وہ اس قدر ژود نگاہی اور کج فکری کا شکار ہوتی ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نظریات میں کس قدر تضاد اور الجھاؤ پایا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال میں عیسائی مبتلا ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم، حضرت عیسیٰ اور اللہ تعالیٰ کو ملا کر خدا مکمل ہوتا ہے غور فرمائیں کہ عیسائی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی زبان سے تثلیث پر بھی اصرار کیے جا رہے ہیں۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر عیسائی تثلیث کا مغالطہ دیتے ہیں وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بن باپ پیدا ہونا ہے جن کے بارے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف کروانے کی خاطر سولی پر لٹک چکے ہیں۔ یہ تو قرآن مجید کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ سولی چڑھائے گئے اور نہ ہی انھیں قتل کیا گیا ہے۔ تاہم قرآن مجید انھیں یہ باور کرا رہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ اور اس کی والدہ کو ہلاک اور زمین و آسمان کو نیست و نابود کرنا چاہے تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو انھیں بچا اور تحفظ دے سکے گی؟ کیونکہ زمینوں، آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا سب اللہ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار کا یہ مظہر ہے کہ اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے جس طرح چاہے اس کو پیدا فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والا ہے۔ عیسائیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مصلوب بھی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جو اپنی موت و حیات پر اختیار نہیں رکھتا وہ اللہ یا اس کا شریک کس طرح ہوسکتا ہے، کیا فنا ہونے والا اور باقی رہنے والا یا با اختیار اور بے اختیار دونوں برابر یا ایک دوسرے کے شریک ہو سکتے ہیں۔ مسائل : 1۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا کفر ہے۔ 2۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) اللہ کا بیٹا نہیں۔ 3۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ 5۔ جس کو اللہ تعالیٰ نقصان پہنچانا چاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی خالق ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ:22) 2۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم :20) 3۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین :4) 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 5۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف :189) 6۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف :54) 7۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء :1)