لَّٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا
” لیکن ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ اور ایمان والے ہیں، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز ادا کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم عنقریب بہت زیادہ اجر عطاکریں گے۔“ (١٦٢)
فہم القرآن : ربط کلام : یہودیوں سے اچھے لوگوں کا استثنیٰ اور ان کی خوبیوں کا ذکر۔ قران مجید کے اسلوب بیان اور انصاف پسندی پر قربان جائیں جو نہی یہود و نصاریٰ کے جرائم کی فہرست اور انکے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرتا ہے۔ معاً ان کے نیک علماء اور زعما کے اچھے کردار کی تحسین کرتا ہے کہ بے شک انکی اکثریت برے لوگوں پر مشتمل ہے لیکن یہ تمام کے تمام ایسے نہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہیں اور ہوں گے کہ جب بھی ان کے سامنے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو وہ مذہبی تعصب اور گروہ بندی کی دیواریں توڑ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اور تمام اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اسلام انہیں کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دامن عمل میں ہر خیر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے انکا رب راضی ہوتا ہے۔ ایسے خوش نصیب اور عظیم لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ عنقریب ان کو دنیا میں عزت و رفعت ملے گی اور آخرت میں ا جر عظیم سے نوازا جائے گا۔ راسخ العلم کی سورۃ آل عمران آیت ٧ میں تعریف کی گئی ہے کہ وہ متشابہات کے پیچھے لگنے کی بجائے مرکزی اور بنیادی احکام کو سامنے رکھتے ہوئے متشابہ آیات کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ یہ لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس سے استقامت اور رحمت کے طلبگار رہتے ہیں یہاں دین کے چار بنیادی عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتب آسمانی اور قرآن مجید پر مکمل ایمان لانا نماز کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانا شامل ہے ایسے لوگوں کے اجر عظیم کے بارے میں رسول کریم (ﷺ) نے یوں ارشاد فرمایا ہے : (عن أَبی بُرْدَۃَ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (ﷺ) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکار دوعالم (ﷺ) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت فرمایا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ ارکان اسلام پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ 2۔ آخرت پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔ 3۔ قرآن مجید کے ساتھ پہلی کتب سماوی پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن : ایمان کی مبادیات اور راسخ العلم کی صفت : 1۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ:3) 2۔ پہلی کتابوں پر مجموعی طور پر اور قرآن مجید پر کلی طور پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:285) 4۔ راسخ العلم کی صفت۔ (النساء :162) 5۔ صحابہ کرام جیسا ایمان لانا فرض ہے۔ ( البقرۃ:137)