وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
” اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہ کی یہی وہ لوگ ہیں کہ عنقریب اللہ انہیں ان کے اجردے گا اور اللہ بہت ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین اور کفار کا ذکر کرنے کے بعد سچے اور پکے مسلمان کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ایمان کامل کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لایا جائے کہ وہ اپنے اپنے زمانے میں اللہ کے برگزیدہ رسول تھے اور انہوں نے ٹھیک ٹھیک طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا۔ جس بنا پر مقام رسالت کے حوالے سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے انبیاء پر صحیح ایمان لانے کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ جب جناب رسالت مآب محمد (ﷺ) کو آخری نبی تسلیم کیا جائے کیونکہ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی نبوت کا اقرار کرچکے ہیں۔ (آل عمران :81) انہوں نے اپنی اپنی امت کو یہی پیغام دیا تھا بالخصوص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کے لیے دعا کی اور آپ کی جائے نبوت کی نشان دہی فرمائی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو کہ آپ سے پہلے نبی ہیں انہوں نے بنی اسرائیل کو آپ کی تشریف آوری کی خوشخبری دی اور آپ کے اسم گرامی سے آگاہ فرمایا۔ لہٰذا جو لوگ اس طرح ایمان لائیں گے وہ اللہ کے ہاں بے حد و حساب اجر پائیں گے۔ بتقاضائے بشریت سرزد ہونے والی ان کی خطاؤں اور گناہوں کو معاف کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ﴾[ البقرہ :129] ” اے ہمارے رب ان میں ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو وہ ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے بلاشبہ تو غالب اور حکمت والاہے“ ﴿وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیٓ إِسْرَآءِیلَ إِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ﴾[ الصّف :6] ” اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں یقیناً تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور پہلے سے نازل شدہ تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔“ ﴿وَاِذْاَخَذَاللّٰہُ مِیْثَا قَ النَّبِیّٖنَ لِمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُ ٗ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَامَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ﴾ [ آل عمران :81] ” اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب وحکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے تمہیں لازماً ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا تم اقرار کرتے ہو اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟ انبیاء نے کہا ہم اقرار کرتے ہیں فرمایا گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں“ ( عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِی طینَتِہٖ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِ ذٰلِکَ دَعْوَۃِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ وَبِشَارَۃِ عیسیٰ (علیہ السلام) قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّی الَّتِی رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہُ قُصُور الشَّامِ وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّہَات النَّبِیِّینَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِمْ)[ رواہ احمد] ” حضرت عرباض بن ساریہ سلمی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں قرآن مجید میں مجھے خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے اس وقت سے جب حضرت آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور روح کے درمیان تھے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں میری والدہ نے دیکھا کہ ان کے وجود سے ایک روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اور اسی طرح ہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مائیں دیکھا کرتی تھیں۔“ مسائل :1۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ بلا تفریق تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ 2۔ کامل ایمان والوں کے لیے بے حدو حساب اجر ہوگا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔