إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا
بے شک منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ انہیں فریب میں مبتلا کرتا ہے اور جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی غفلت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں محض لوگوں کو دکھلانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتے ہیں
فہم القرآن : (آیت 142 سے 143) ربط کلام : منافقین کا کردار اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں۔ آدمی جب مسلسل دھوکہ اور فراڈ کرنے کا روّیہ اختیار کرلے اور اس پر اس کی گرفت نہ ہو تو شیطان اس کے دل میں یہ خیال اور دلیری پیدا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اس قدر نا پسند ہوتی تو مجھے ایسا کرنے کی اجازت اور طاقت نہ دیتا۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی مہلت دینے کے اصول کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھناؤنے کردار میں آگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت اس کے لیے خود فریبی اور دھوکے کا باعث بنتی ہے اس مہلت کو وہ شخص اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف سمجھتا ہے حالانکہ مکڑی کے جالے کی طرح خود ہی اس میں پھنسا رہتا ہے۔ نماز میں سستی اور غفلت جسمانی کمزوری اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے نماز میں جمائیاں لینے کو شیطانی عمل قرار دے کر اسے روکنے کا حکم دیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَال التَّثَاؤُبُ فِی الصَّلَاۃِ مِنَ الشَّیْطَانِ فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَکْظِمْ مَااسْتَطَاعَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراھیۃ التثاؤب فی الصلاۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا نماز میں جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ پوری کوشش سے اسے روکے۔“ نبی محترم (ﷺ) کا سستی سے پناہ مانگنا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتاہوں۔“ فطری سستی اور غفلت منافقت کے زمرہ میں نہیں آتی۔ منافق تو جان بوجھ کر نماز میں لاپرواہی اور غفلت اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں اخلاص کے بجائے کھوٹ ہوتا ہے۔ اسی سبب وہ اپنے اعتقاد اور عمل کے حوالہ سے اسلام کے بارے میں متذبذب رہتا ہے۔ نہ مسلمانوں سے مخلص ہوتا ہے اور نہ پوری طرح کفار کے ساتھ ہوتا ہے۔ کافر اور گنہگار کے لیے توبہ کی چار شرطیں ہیں (1) آئندہ گناہ کرنے سے رکنے کا عہد (2) سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا (3) گناہ پر شرمندگی اور ندامت (4) اگر کسی کا حق ضبط کیا ہو تو ادا کرے۔ جبکہ منافق کی توبہ کے لیے مزید دو شرائط رکھی گئی ہیں کہ توبہ اور اصلاح کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایمان باللہ پر اخلاص کے ساتھ استقامت اور اپنے دین میں مخلص ہوجائے۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِبْلٍ الْأَنْصَارِیِّ (رض) أَنَّہٗ قَالَ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) نَھٰی فِی الصَّلٰوۃِ عَنْ ثَلَاثٍ نَقْرِ الْغُرَابِ وَافْتِرَاش السَّبُعِ وَأَنْ یُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَقَامَ الْوَاحِدَ کَإِیْطَانِ الْبَعِیْرِ) [ مسند احمد : کتاب مسند المکیین، باب زیادۃ فی حدیث عبدالرحمن بن شبل] ” حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے نماز میں تین کاموں سے منع کیا۔ (1) کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا (2) درندے کی طرح بازو بچھانا۔ (3) اور اونٹ کی طرح ایک جگہ کو پکڑے رکھنا۔“ مسائل : 1۔ منافق دھوکہ باز اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے جی کترانے والا ہوتا ہے۔ 2۔ منافق کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ 3۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ 4۔ منافق دکھلاوے کے لیے نیک عمل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : منافقین کی نماز : 1۔ نماز میں سستی۔ (الماعون :5) 2۔ نماز میں ریا کاری۔ (الماعون :6)