يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو ! اللہ ہی کے لیے عدل و انصاف پر مضبوطی کے ساتھ گواہی دینے والے ہوجاؤ۔ چاہے وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں، عزیزوں کے وہ امیر ہو یا غریب اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ تم خواہش کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑو اور اگر تم نے غلط بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ فرمان سے اس کا تعلق معنوی ہے کہ گھرسے لے کر عدالت تک انصاف پر قائم رہنا چاہیے۔ بنیادی طور پر امت مسلمہ فریضۂ شہادت کی ادائیگی کے لیے منتخب کی گئی ہے تاکہ دنیا میں اپنے قول اور فعل کے ساتھ حق کے ترجمان اور توحید کی گواہی دیتے رہیں۔ آخرت میں پہلی امتوں کے بارے میں انبیاء کی تائید اور ان کی نبوت کی شہادت دیں گے۔ جسے قرآن مجید اور رسول محترم (ﷺ) نے یوں بیان فرمایا ہے : ﴿لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ﴾ [ البقرۃ:143] ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔“ (أَنْتُمْ شُھَدَآءُ لِلّٰہِ فِی الْأَرْضِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت] ” مسلمانو! تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔“ لیکن اس آیت میں لفظ ” قسط“ استعمال فرماکر عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد بیان ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں اور لوہا نازل کیا جس میں بڑی قوت اور لوگوں کے لیے بڑے فوائد ہیں۔[ الحدید :25] یہاں شہادت سے مراد وہ گواہی ہے جو کسی واقعہ یا مقدمہ کے ثبوت کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ اس پر قائم ہونے کا حکم دیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ اس پر پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل اور احترام کا جذبہ کار فرما ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں حق و انصاف کا بول بالا اور عدالتوں میں عدل کا ترازو قائم رہے۔ اس کے لیے گواہی کا عدل و انصاف کے اصول پر پورا اترنا اور قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔ مقدمے کا ریکارڈ بھی تحریری شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔ جج اس کا پابند ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اچھی طرح گواہی کی چھان بین کرے کیونکہ گواہی کا مقدمے میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ کتنے مقدمات کے فیصلے اس بات پر شاہد ہیں کہ جھوٹی شہادتوں کی وجہ سے بے گناہ شخص پھانسی کے پھندے پر لٹک گیا اور اصل مجرم نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ مزید جرائم کا ارتکاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا گواہی اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر بلا رعایت اور لحاظ واقعات کے مطابق دینی چاہیے۔ بے شک یہ گواہی انسان کے اپنے نفس، والدین، اعزہ واقرباء، مالدار یا کنگال کے خلاف ہو خواہ تمہیں ان کا مفاد اور جان کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو۔ والدین کا رشتہ مقدس اور قابل صد احترام، اعزہ واقرباء تمہیں بڑے پیارے، دولت مند مؤثر اور غریب قابل رحم اور خیر خواہی کے لائق ہے لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کا تم سے زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد ہے۔ تم کسی کو نہ نفع دے سکتے ہو اور نہ نقصان سے بچا سکتے ہو لہٰذا تم اچھے برے جذبات کے پیچھے لگنے کے بجائے شہادت عدل پر قائم ہوجاؤ۔ اس میں بے انصافی، لچک اور کسی قسم کا اغراض نہیں ہونا چاہیے۔ یقین جانو اللہ تعالیٰ تمہاری نیت اور عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّ (ﷺ) عَنِ الْکَبَآءِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دیناکبیرہ گناہ ہیں۔“ مسائل :1۔ مسلمانوں کو صرف اللہ کے لیے عدل وانصاف پر قائم ہونا چاہیے۔ 2۔ عدل و انصاف کے راستے میں کسی رشتہ دار اور خواہش کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن :عدل و قسط کی اہمیت : 1۔ نبی (ﷺ) کو عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف :29) 2۔ انصاف کی بات کہنے کا حکم۔ (الانعام :152) 3۔ صلح بھی عدل و انصاف سے کروانا چاہیے۔ (الحجرات :9) 4۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد انصاف قائم کرنا تھا۔ (الحدید :25) 5۔ کسی کی دشمنی عدل و انصاف میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ (المائدۃ:8) 6۔ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ (المائدۃ:42)