إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِينَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ قَدِيرًا
اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور دوسروں کو لے آئے اور اللہ تعالیٰ اس پر قدرت رکھنے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 133 سے 134) ربط کلام : اگر تم اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کرو گے تو یاد رکھو تم اس کی قدرت سے باہر نہیں ہو وہ جب چاہے گا تمہاری صف لپیٹ کر کسی اور قوم کو زمین کا وارث بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا قطعاً دُشوار نہیں ہے وہ کلی طور پر ایسا کرنے پر قادر ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر معاشرے کے کمزور طبقہ کو غالب کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش اس بات پر زندہ ثبوت ہے۔ یہودی اپنی حد سے باہر ہوئے تو ان پر عیسائیوں کو مسلط فرمایا۔ عیسائی حدود پھلانگنے لگے تو کسی دوسری قوم کو غلبہ عطا ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ بھی اسی حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک گروہ کو دوسرے پر کس طرح مسلط فرمایا۔ مکہ مکرمہ مرکز ہونے کے باوجود مدینہ والوں کے زیر نگین ہوا۔ حجاز پر شامیوں نے حکومت کی۔ امویوں کو اقتدار سے ہٹایا تو پانچ سو سال تک عباسیوں کا پھریرا بلند ہوا۔ پھر عباسیوں پر ترکوں کا غلبہ ہوا۔ علیٰ ھذاا لقیاس ہر دور اور قوم پر اللہ تعالیٰ کا فرمان غالب رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر اور فیصلہ صادر کرنے والا ہے۔ لہٰذا جو دنیا کے صلہ کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی کوشش اور اپنی حکمت ومشیّت کے مطابق اسے دنیا نصیب فرمائے گا۔ جو دنیا کے ساتھ آخرت کا خواہاں ہوگا اللہ اسے بھی اس کی کوشش اور اپنی حکمت اور تقسیم کے مطابق اجر عطا فرمائے گا۔ یہاں دنیا کے طالب کو دنیا کے اجر کا اشارہ فرما کر آخرت کے ثواب کا ذکر اس لیے کیا تاکہ لوگ صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ دنیا و آخرت کے صلہ و ثواب کے لیے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو موجودہ انسانوں کو ختم کر کے دوسروں کو لاسکتا ہے۔ 2۔ دنیا اور آخرت میں اجر سے نوازنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔