وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
تم سے یہ نہیں ہوسکے گا کہ اپنی بیویوں میں ہر طرح عدل کرسکو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش کرو۔ اس لیے بالکل ہی ایک طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرلو اور تقوی اختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اس سورت کی تیسری آیت میں عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ بیک وقت چار تک عورتیں نکاح میں رکھنے کی اجازت دی تھی۔ اب ایک سوال کے جواب میں اس کے متعلقات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ پہلے حکم میں عدل کا مفہوم مالی اور اخلاقی معاملات کے ساتھ ہے۔ اب اخلاقی معاملے میں حکم ہے۔ جہاں تک قلبی میلان کا تعلق ہے اس میں تم بیویوں کے درمیان مساوات اور انصاف کرنا چاہوبھی تو پوری طرح انصاف نہیں کرسکتے کیونکہ دل کے رجحانات اور جذبات پر قابو پانا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ اگر کسی بیوی کا حسن و جمال اور اس کے اخلاق کی وجہ سے تمہارا دل اس کی طرف زیادہ مائل ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ لیکن کوشش کرو کہ تم ایک ہی کے ہو کر نہ رہ جاؤ۔ بلکہ ظاہری محبت میں سب کی دلجوئی کرنی چاہیے تاکہ ایک بیچاری تمہارا منہ تکتے ہوئے معلق ہو کر نہ رہ جائے۔ لہٰذا جذبات محبت پر کنٹرول کرتے ہوئے بے انصافی سے بچو۔ اگر تم منصفانہ برتاؤ اور سب کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریوں کو معاف کرنے والا مہربان ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کی دعا ہے : (اَللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَاتَمْلِکُ وَلَآ أَمْلِکُ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب النکاح] ” اے اللہ! میرا عدل اور مساوات اسی حد تک ہے جو میرے اختیار میں ہے جو تیرے اختیار میں ہے وہ میرے اختیار میں نہیں اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے گا۔“ ( مَنْ کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَی إِحْدَاہُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہُ مَائِلٌ ) [ رواہ ابوداود : باب القسمۃ بین النساء] بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے والا روز قیامت فالج زدہ انسان کی طرح اٹھایا جائے گا۔ مسائل : 1۔ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنا فرض ہے۔ 2۔ اپنی اصلاح کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو گے تو اللہ کو بخشنے والا پاؤ گے۔