وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
قسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکارتے ہوئے دوڑتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : سورۃ زلزال کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ جس نے نیکی کی وہ اپنی نیکی کو دیکھ لے گا اور جس نے برائی کی وہ بھی اپنی برائی کو اپنے سامنے پائے گا۔ العادیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا اور جو کچھ اس نے کیا ہے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں پانچ قسمیں اٹھائی ہیں جو جنگ کے دوران گھوڑوں کی مختلف حالتوں سے متعلق ہیں۔ ارشاد ہوا کہ قسم ہے ان گھوڑوں کی جو تیز دوڑتے ہوئے ہانپتے ہیں پھر اپنی ٹاپوں سے چنگاریاں نکالتے ہیں پھر صبح کے وقت دشمن پر دھاوابولتے ہیں اور گردوغبار اڑاتے ہوئے دشمن کے لشکر میں گھس جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے اور بھی جانور پیدا کیے ہیں مگر جو اوصاف اور قوت گھوڑے میں رکھی ہے وہ کسی اور جانور میں دکھائی نہیں دیتی۔ بے شک انسان نے اپنی سواری کے لیے بڑی تیز رفتار اور آرام دہ گاڑیاں ایجاد کرلی ہیں لیکن گاڑی پر بیٹھے ہوئے آدمی کا وہ رعب نہیں ہوتا جو گھوڑے کے شاہسوار کا رعب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا میں مال دار لوگ، بڑے بڑے جرنیل اور سیاستدان گھوڑ سواری کرنا اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے نسلی اور قیمتی گھوڑے رکھنا ان کا شوق ہوتا ہے۔ میدان جنگ بالخصوص پہاڑی علاقے میں جہاں گاڑیاں اور ٹینک نہیں جا سکتے وہاں گھوڑا ہی واحد سواری ہے جودشمن کے خلاف کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ قدیم دور میں جس قبیلے یا فوج کے پاس جنگی گھوڑے زیادہ ہوتے تھے وہ فوج زیادہ طاقتور سمجھی جاتی تھی۔ پہلے زمانے میں عام طور پر دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے صبح کا وقت بڑا مناسب سمجھا جاتا تھا تاکہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس وقت گھوڑوں کو سرپٹ دوڑایا جاتا جس سے گھوڑوں کے سینے سے ہاپنے کی آواز نکلتی جو گھوڑے اور شاہسوار کی بہادری اور قوت کی دلیل سمجھی جاتی۔ شاہسوار خاص طور پر جب دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لیے گھوڑے کو ایڑ لگاتا تو جنگجو گھوڑا زمین پر پاؤں مار کر ہنہناتا ہوا اپنی جرأت اور آمادگی کا اظہار کرتا گھوڑا پتھریلی زمین پر سم مارتا تو رات کے وقت اس کے پاؤں کے نیچے سے چنگاریاں نکلتی تھیں جو مجاہد کے حوصلے کو دوبالا کرتی تھیں۔ قرآن مجید نے اس منظر کو اس لیے بیان کیا ہے تاکہ مسلمانوں میں قتال فی سبیل اللہ کا جذبہ زندہ اور بیدار رہے۔ گھوڑا بہادر ہونے کے ساتھ اپنے مالک کا وفادار اور اپنے کام میں نہایت ہی سمجھ دار جانور ہے، اسے سینکڑوں میل دور جاکر گھر کی طرف موڑ دیا جائے تو اکیلا ہی اپنے کھونٹے پر پہنچ جاتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :۔۔ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بوجھ ہے دوسرا اپنے مالک کی کمزوری چھپانے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کے لیے ثواب کا باعث ہے۔ وہ گھوڑا جو لوگوں کو دکھلاوے کے لیے رکھا جائے اور گھوڑے کے ذریعے مالک لوگوں میں فخر کرے اور مسلمانوں سے عداوت رکھے یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ کمزوری چھپانے والا گھوڑا وہ ہے جس کو اللہ کی راہ میں باندھا گیا ہو، اس کا مالک اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس اور چارہ میں کمی آنے دیتا ہے یہ مالک کی کمزوری چھپانے والا ہے۔ یعنی مالک کی طاقت کا سبب ہے۔ تیسرا گھوڑا ثواب کا باعث ہے یہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی رضا اور اہل اسلام کی مدد کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ گھوڑا جو چراگاہ یا باغ سے کھائے گا اتنی نیکیاں اس کے مالک کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جائیں گی اور اس کی لید اور پیشاب کو بھی نیکیوں میں شامل کیا جائے گا۔ جب یہ گھوڑا اپنی لمبی رسی توڑ کر کسی ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں کے مطابق نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک اس کو کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس سے پانی پیتا ہے بے شک مالک کا پانی پلانے کا ارادہ ہو یا نہ ہو تب بھی پانی کے قطروں کے موافق مالک کے حق میں نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ آپ (ﷺ) سے گدھے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا۔ ﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ﴾ جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے قیامت کے دن دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ (رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ) مسائل: 1۔ انسان ہر صورت قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور جو کچھ ان کے سینوں میں ہے ظاہر کردیا جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کے عمل سے باخبر ہوگا۔