سورة الليل - آیت 17

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور پرہیزگار کو جہنم سے دور رکھا جائے گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 17 سے 21) ربط کلام : بدبخت شخص کے مقابلے میں نیک بخت کا کردار اور اس کا انعام۔ جہنم سے ہر وہ شخص دور رکھا جائے گا جس نے کفر و شرک سے توبہ کی اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچتا رہا اور اس نے اپنے مال کو پاک کرنے اور اپنے آپ کو بخل سے بچانے کے لیے صدقہ کیا۔ وہ کسی پر صدقہ اس لیے نہیں کرتا کہ اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکانا ہے۔ کسی کے احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا نہایت ہی بہتر عمل ہے لیکن بہترین صدقہ یہ ہے کہ جس پر وہ خرچ کررہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی قسم کا مفاد نہ پایا جائے۔ اسی بات کو سورۃ الدّھر میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔“ (الدھر : 8، 9) ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بہت جلد راضی کردے گا، راضی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ 1۔ اس کا دل اپنے کام پر خوش ہوگا۔2۔ لوگوں میں اس کا احترام بڑھے گا۔3۔ اس کے مال میں برکت ہوگی۔ 4۔ آخرت میں اسے عظیم اجر دیا جائے گا۔ مفسرین نے ان آیات کا سب سے پہلا مصداق حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو قرار دیا ہے جن کے متعلق مشہور مؤرخ ابن عساکر اور ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا مکہ میں یہ کام تھا کہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے جس غلام یا لونڈی پر ظلم کیا جاتا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کسی نہ کسی قیمت میں اسے خرید لیتے اور پھر اللہ کی رضا کی خاطر آزاد کردیتے۔ ان کے والد ابوقحافہ نے ایک دن کہا کہ بیٹا تم ایسے لوگوں کو خرید کر آزاد کرتے ہو جو مشکل وقت میں تیرے کام آنے والے نہیں ان کی بجائے ان لوگوں پر مال خرچ کیا کرو جو مشکل وقت میں آپ کے کام آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے باپ سے عرض کرتے ہیں کہ ” اَیْ اَبِ اِنَّمَا اُرِیْدُ مَا عِنْدَاللّٰہِ“ ” اے باپ میں تو ” اللہ“ کے لیے ایسا کرتا ہوں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ () فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشیخ الصحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی (ﷺ) کے پاس آکر پوچھتا ہے کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر کا باعث ہے؟ فرمایا جب تو تندرست اور مال کی خواہش رکھتا ہو محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود صدقہ کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آ پہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اور اتنا فلاں کو دو۔ حالانکہ اب تو سارا مال ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ انسان کو صرف اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا چاہیے۔ 2۔ جو مسلمان ” اللہ“ کی رضا کے لیے صدقہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے خوش وخرم فرما دیں گے۔ تفسیر بالقرآن : ” اللہ“ کی رضا کے لیے صدقہ کرنے کے فوائد : 1۔ صدقہ کرنا ” اللہ“ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 2۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 3۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 4۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ :99) 5۔ ” اللہ“ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 6۔” اللہ“ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ:261)