سورة الأعلى - آیت 14

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ شخص فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 14 سے 19) ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتی لوگوں کا کردار۔ وہ شخص جہنم سے بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو پاک رکھا، اور اپنے رب کو یاد رکھا اور اس کے حضور پنجگانہ نماز ادا کرتارہا۔ ” تَزَکیّٰ“ سے پہلی مراد کفر اور شرک سے بچنا ہے۔ گناہوں سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ آدمی فرض نماز ادا کرتارہے اور ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھے۔ رب کو یاد کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ زبان سے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ پڑھے اور توبہ کا ورد کرتا رہے مگر عملی طور پر کفر و شرک اور نافرمانی کے کاموں میں مبتلا رہے۔ ذکر کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کے احکام کو یاد رکھے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہے۔ بصورت دیگر اسے دنیا میں ذکر کرنے اور نماز پڑھنے کا فائدہ ہوگا لیکن آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب مسلمان دنیا کے مفاد پر آخرت کو مقدم جانے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ آخرت دنیا سے ہر اعتبار سے بہتر اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ یہی احکام اور نصائح آسمانی صحائف میں پائے جاتے ہیں بالخصوص صحف ابراہیم (علیہ السلام) اور صحف موسیٰ (علیہ السلام) میں ان کابڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ صحف ابراہیم کا تذکرہ اس لیے کیا ہے کہ وہ جد الانبیاء ہیں اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت اور ان کے ا فکار و کردار سے متاثر نہ ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحف تورات کی صورت میں نازل ہوئے ان کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل نازل کی گئی جو تورات کے احکام کا خلاصہ اور ان کی تشریح پر مبنی ہے، لہٰذا تورات ہی حقیقت میں قرآن مجید سے پہلے جامع کتاب تھی اور ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ﴾ الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَائِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ جس نے اپنے آپ کو شرک سے پاک رکھا وہ کامیاب ہوگا۔ 2۔ جس نے نماز کا التزام کیا اور اپنے رب کو یاد رکھا وہ کامیاب ہوگا۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانتے ہیں حالانکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ 4۔ یہ نصیحتیں پہلے صحیفوں بالخصوص حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے صحف میں موجود ہیں۔ تفسیربالقرآن : کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف : 1۔ اللہ کے بندے اس کی توحید کا اقرار کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : 14، حم السجدۃ:30) 2۔ اللہ کے بندے آپ ” رب“ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ:82) 3۔ اللہ کے بندے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (النساء :13) 4۔ محسنین تنگی اور کشادگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران :134) 5۔ اللہ کے بندے اس سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (الرحمن :46) 6۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود :115) 7۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ:195) 8۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:13)