اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھے راستے کی راہنمائی فرما
فہم القرآن : (آیت 6 سے 7) اب انعام یافتہ اور ہدایت یافتہ جماعت کا راستہ، ان کے ساتھ محبت اور ان کی معیت کی درخواست کی جاتی ہے جب کہ دوسرے گروہ سے اجتناب اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کارواں کے راستہ کی دعا کی جارہی ہے وہ محض عقیدت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ان کے کردار اور اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے۔ جو خدا کے فرستادہ، پسندیدہ اور انعام یافتہ انبیائے کرام علیہم السلام ہیں ان پر سب سے بڑا انعام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا راستہ بتلائیں اور اس پر چل کر دکھائیں۔ اس قافلۂ قدسیہ کے معزز افراد ایک مشن کے داعی، خاندان نبوت کے افراد اور رشتۂ رسالت کے حوالے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ رسالت مآب {ﷺ}نے فرمایا : (اَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْأَنْبِیَآءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ﴾) ” لوگو! میں عیسیٰ بن مریم {علیہ السلام}کے دنیا وآخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن دین ایک ہے۔“ انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ : ﴿فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئکَ رَفِیْقًا۔﴾(النساء :69) ” تو وہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔“ پہلے انبیاء کی نبّوتوں اور شخصیتوں کی تائید کرنا ہمارے لیے ضروری اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن سمع واطاعت صرف نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ {ﷺ}کی کرنا ہوگی۔ اس سے اس نظریہ کی از خود نفی ہوجاتی ہے جو رسالت مآب {ﷺ}کے ارشادات کے مقابلہ میں کسی نبی یا شخصیت کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ فاتحہ کے آخر میں جس گروہ سے نفرت کا اظہار اور جن کی عادات اور رسومات سے بچنے کی دعا کی جارہی ہے وہ صرف گروہ بندی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان سے اس لیے الگ رہنا ہے کہ وہ اپنی بے اعتدالیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کے سزا وار ٹھہرے ہیں۔ ” آمین“ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {ﷺ}قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوْا فَإِنَّہٗ مَنْ وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَامِیْنَ الْمَلآئِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوگئی اس کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے گئے۔“ آمین کی فضیلت واہمیت : (عَنْ أَبِیْ مُصَبِّحِ الْمَقْرَائِیِّ قَالَ کُنَّا نَجْلِسُ إِلٰی أَبِی زُھَیْرٍ النُّمَیْرِیِّ وَکَانَ مِنَ الصَّحَابَۃِ فَیَتَحَدَّثُ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ فَإِذَا دَعَا الرَّجُلُ مِنَّا بِدُعَاءٍ قَالَ اخْتِمْہُ بآمِیْنَ فَإِنَّ آمِیْنَ مِثْلُ الطَّابِعِ عَلَی الصَّحِیْفَۃِ )]رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب التأمین وراء الإمام[ ” حضرت ابو مصبح المقرائی {رض}فرماتے ہیں ہم ابو زہیر نمیری {رض}کے ہاں بیٹھے تھے جو صحابی تھے وہ اچھی اچھی باتیں بیان کرتے تھے۔ ہم میں سے ایک آدمی نے دعاشروع کی تو صحابی نے فرمایا دعا ” آمین“ کے ساتھ ختم کرو کیونکہ دعا کو آمین کے ساتھ ختم کرنا ایسے ہی ہے جیسے خط پر مہر لگادی جائے۔“ سورہ فاتحہ کی آیات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے اور یہی ساتویں آیت ہے اور اس کا پڑھناواجب ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ نہیں بلکہ ﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ﴾ الگ آیت ہے اور ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ الگ آیت ہے۔ (دیکھیے ایسر التفاسیرجلد 1صفحہ نمبر10) مسائل : 1- صراط مستقیم کے ساتھ دنیا اور آخرت میں انعام یافتہ لوگوں کی رفاقت کی دعا کرنا چاہیے۔ 2- مغضوب لوگوں کے طریقے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : انعام یافتہ اور مغضوب لوگ : 1- انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین انعام یافتہ لوگ ہیں۔ (النساء :69) 2- حضرت آدم، نوح، ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) انعام یافتہ حضرات تھے۔ (مریم :58) 3- مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف :152) 4-بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ:61) 5- مغضوب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ (الفتح: 6) 6-گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنۃ :13)