سورة القلم - آیت 1

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

نٓ۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے سورۃ الملک کے آخر میں اپنی قدرت کی کئی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان نشانیوں میں اس کی قدرت کی عظیم ترین نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے سے پہلے قلم پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کرنا تھا قلم کو لکھنے کا حکم دیا۔ حرفِ ” ن“ حروف مقطّعات میں شامل ہے اس کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بعض مفسرین نے قلم کے ذکر کی وجہ سے ” ن“ کا معنٰی دوات لکھا ہے لیکن نبی (ﷺ) سے یہ معنٰی ثابت نہیں۔ حرف ” ن“ کے بعد واؤ کا حرف لایا گیا ہے جو ” قسم“ کے لیے ہے۔ قرآن مجید کی قسم اٹھانا : حضرت امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے۔ (باب الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَصِفَاتِہِ وَکَلِمَاتِہٖ) جس میں انہوں نے دواحادیث ذکر کی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن مجید ” اللہ“ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس لیے قرآن مجید کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اٹھا کر قلم کی اہمیت اور اس سے لکھنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر انسان کو قلم ایجاد کرنے اور لکھنے کی صلاحیت نہ بخشتا تو دنیا میں کسی علم کی اس طرح ترویج نہ ہوپاتی، قلم ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ساتھ ہر بات کو طویل مدت تک محفوظ رکھاجاسکتا ہے، جس کے ذریعے دنیا کی تاریخ، حساب و کتاب، ہر قسم کا علم اور دینی مسائل: اگلی نسل تک پہنچائے جاتے ہیں۔ قلم سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے کوئی بات لکھی جاتی ہے بے شک ان کی کوئی بھی صورت ایجاد ہوجائے۔ لیکن یہاں ” القلم“ سے مرادوہ قلم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے اپنے خالق کے حکم سے لوح محفوظ پر سب کچھ لکھ دیا جوقیامت تک ہونے والا ہے۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ” القلم“ سے مراد وہ قلم ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ لوح محفوظ سے اپنے رب کے فیصلے نقل کرتے ہیں اور دوسرے ملائکہ تک پہنچاتے ہیں۔ تیسری جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ قلم ہے جس سے قرآن مجید لکھا گیا ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ () یَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہُ اکْتُبْ فَجَرَی بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلَی الأَبَد وَفِی الْحَدِیثِ قِصَّۃٌ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ) (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ ن) حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اسے فرمایا لکھ! پھر ابد تک ہونے والا سلسلہ جاری فرمایا۔“ ﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (المائدۃ:89) ” اللہ تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ لیکن تمھارا اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں۔ اس کا کفارہ درمیانے درجے کا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا ہے، جو یہ نہ پائے تو تین دن روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکرادا کرو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا فرما کر اسے کائنات کی ہر چیز لکھنے کا حکم دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو جو حکم دیا اس نے مِن و عن لکھ دیا۔ 3۔ قلم کے ذریعے ہر بات کو طویل مدت تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ 4۔ قلم نظام تعلیم میں موثر ترین ذریعہ ہے۔ تفسیر القرآن قسم کے مسائل: 1۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : 91تا94) 2۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور : 22تا24) 3۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ:225) 4۔ ڈھال کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ:224) 5۔ اللہ کے عہد اور قسموں کے ذریعے مال کمانے والوں کو عذاب الیم ہے۔ (آل عمران :77) 6۔ قسم کو ڈھال نہ بنائیں۔ (البقرۃ:224) 7۔ ناجائز قسموں پر عمل نہ کیا جائے۔ (التحریم : 1، 2) 8۔ جھوٹی قسمیں کھانے والوں کا انجام۔ (التوبۃ:95) 9۔ بلا قصد قسموں پر مؤاخذہ نہیں۔ (المائدۃ:89)