أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ
کیا تم اس ہستی سے بے خوف ہوگئے جو آسمان میں ہے وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین ہچکولے کھانے لگے؟
فہم القرآن: (آیت 16 سے 18) ربط کلام : جس ذات نے تمہیں پیدا کیا اور زمین کو تمہارے لیے فرش کے طور پر بچھایا ہے کیا اس سے بے خوف ہو کر اس کی نافرمانیاں کرتے ہو۔ یاد رکھو اگر وہ چاہے تو نافرمانوں کو زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کر انہیں نیست ونابود کر دے۔ جس رب کے حضور تم نے قبروں سے نکل کر پیش ہونا ہے وہ آسمانوں میں ہے۔ کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ زمین کو اس طرح ہلا دے کہ تمہیں زمین میں دھنسا کر رکھ دے۔ کیا تم اس ہستی سے بے پرواہ ہوگئے ہو جو آسمان میں ہے وہ چاہے تو تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے تم پر پتھروں کی بارش برسائے پھر تمہیں معلوم ہو کہ اس کا ڈرانا کیسا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی ” اللہ“ کے ڈر سے بے خوف ہوگئے تھے۔ جب وہ ” اللہ“ کے ڈر سے بے خوف ہوئے تو ” اللہ“ نے کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی پر پتھروں کی بارش برسائی۔ غور کرو ! کہ میرا عذاب کیسا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے بارے میں دو مرتبہ اشارہ کیا ہے کہ وہ آسمان میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آسمان کا اپنا وجود ہے لیکن یہاں آسمان سے مراد رفعت اور بلندی ہے۔ یہ مفہوم لینے کی اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا ارشاد ہے کہ اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ ( السجدۃ :3) دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ قرآن اس ذات کی طرف سے اتارا گیا ہے، جس نے زمین اور بلندو بالا آسمانوں کو پیدا کیا، وہ بڑا مہربان اور عرش پر متمکن ہے۔ ( طٰہٰ: 4، 5) ان دلائل کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش معلی پر جلوہ نما ہے اور اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔ ” معاویہ بن حکم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے علاقہ میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ میری بکریوں میں سے ایک بکری کو بھیڑیا اٹھا کرلے گیا ہے میں انسان تھا جس طرح دوسروں کو غصہ آتا ہے، مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے اس لڑکی کے منہ پر طمانچہ دے مارا۔ اس حرکت کے بعد میں رسول مکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اسے میرا بڑا جرم قرار دیا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) کیا میں اسے آزاد کردوں؟ آپ (ﷺ) نے حکم دیا : اسے میرے پاس لاؤ میں لڑکی کو آپ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمانوں میں ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ اس نے جواب دیا : آپ (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ ایمان دارہے۔“ (رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکَلاَمِ فِی الصَّلاَۃِ وَنَسْخِ مَا کَانَ مِنْ إِبَاحَتِہِ) ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (ﷺ) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا۔ باتیں کرتے ہوئے ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا آنا، عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام کا زمین پر نازل ہونا، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخر میں آگ یمن سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ (رواہ ابوداؤد : باب أمارات الساعۃ، قال البانی صحیح) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجرموں کو زمین میں دھنسا دے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو آسمان سے ظالموں پر پتھروں کی بارش برسائے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں سے پہلے کئی ظالموں کی گرفت کی۔ غور کرو! اللہ کی پکڑ کس قدر سخت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا ظالم اقوام کی گرفت کرنا : 1۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 2۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ :6) 3۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ :5) (الحجر :74) (ھود :82)