سورة المجادلة - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی اختیار کیا کرو۔ اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا، اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان والے ہیں اور جو علم والے ہیں اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : مشاورت اور سرگوشی عمومی طور پر مجالس میں کی جاتی ہے اس لیے مجالس کے آداب بتلائے گئے ہیں۔ اے ایمان والوں جب تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو آپس میں کھل جایا کرو ! اس طرح کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فراخی اور کشادگی پیدا کرے گا اور جب تمہیں مجلس سے اٹھ جانے کا حکم دیا جائے تو اٹھ جایا کرو! جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا ہے۔ یاد رکھو! تم جو عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے باخبر ہوتا ہے۔ درجات بلند کرنے کی خوشخبری سنا کر بتلایا ہے کہ جب نبی (ﷺ) مجلس برخواست کریں تو اٹھ جانا چاہیے اور اس میں اپنی توہین نہیں سمجھنی چاہیے جو لوگ نبی (ﷺ) کے حکم پر اٹھ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے گا۔ ایمانداروں کے ساتھ اہل علم کا الگ ذکر فرما کر دواشارے فرمائے ہیں۔ پہلا اشارہ یہ ہے کہ علم کا تقاضا ہے کہ اپنی مجالس میں آنے والوں کو جگہ دی جائے، کیونکہ ایسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، حقیقی علم والے ہی اللہ کے حکم کو سمجھتے اور مانتے ہیں۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ علم والوں کا مقام دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے انہیں عام لوگوں سے زیادہ ” اللہ“ کے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَا یُقِیْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ یَجْلِسْ فِیْہِ وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَ تَوَسَّعُوْا) (رواہ البخاری : باب لاَ یُقِیم الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِہ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ کوئی شخص خود بیٹھنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے۔ اس کی بجائے مجلس میں فراخی اور کشادگی اختیار کیا کرو۔“ (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ مَنْ قَامَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْہِ فَھُوَ اَحَقُّ بِہٖ) (رواہ مسلم : باب إِذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ عَادَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو اسے اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق ہے۔“ ( عَنْ اَنسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ () کَانَ اِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوُ الَّذِیْ یَنْزِعْ یَدَہٗ وَلَا یَصْرِفُ وَجَہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکْوْنَ ہُوَالَّذِیْ یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّماً رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لَہٗ) (رواہ الترمذی : باب المصافحۃ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) جب کسی آدمی سے ہاتھ ملاتے تو اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے الگ نہ کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ کو کھینچ لیتا اور نہ ہی آپ اپنی توجہ اس کے چہرے سے ہٹاتے جب تلک وہ اپنے چہرے کو خود نہ ہٹا لیتا اور نہ مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنے گھٹنوں کو دراز کرتے۔“ ( اَلْمَجَالِسُ بالْأَمَانَۃِ) (رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب) ” مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔“ مسائل: 1۔ ایمانداروں کو اپنی مجالس میں آنے والے بھائی کے لیے فراخی پیدا کرنی چاہیے۔ 2۔ جو شخص دوسرے کے لیے فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے فراخی پیدا کرے گا۔ 3۔ صاحب مجلس مجلس برخاست کرنے کا اعلان کرے تو مجلس سے اٹھ جانا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور اہل علم کے درجات بلند فرمائے گا۔ ٥۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن: علم اور اہل علم کا مقام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق :4) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن :4) 3۔ انسان کو الرّحمان نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن :2) 4۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ:31) 5۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ:32) 6۔ ” اللہ“ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلہ :11) 7۔ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں۔ ( الزمر :9)