سورة الحديد - آیت 19

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے ہاں سچے اور گواہی دینے والے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ سے اجرِکریم پانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی طور پر ایمان لائیں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ اپنے رب کے ہاں سچے اور سچ کی گواہی دینے والے شمار ہوں گے۔ ان کو اجرِکریم ملنے کے ساتھ ایک روشنی نصیب ہوگی اور جو لوگ کفر کریں اور اپنے رب کے ارشادات کی تکذیب کریں گے وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمان میں ایمان لانے والوں کو صدیق اور شہید کا لقب عطا کرنے کے ساتھ اجر اور نور کی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ صدیق کا معنٰی : صدیق سے مراد ایسا شخص جو ہر حال میں سچ بولنے والا، سچ پر قائم رہنے والا اور سچ کے لیے ہر چیز قربان کردینے والا ہو، امت میں اس مقام پر سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق (رض) فائز ہوئے باقی لوگ درجہ بدرجہ اس مقام کے حامل ہوں گے۔ شہید کا معنٰی اور مقام : شہید ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو دل کی سچائی کے ساتھ اسلام میں داخل ہو اور دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہے۔ میدان کارزار میں کٹ مرنے والے کو بھی شہید کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے خون جگر سے حق کی گواہی دیتا ہے۔ رسول اکرم (ﷺ) نے شہادت کے کئی درجے ذکر فرمائے اور کئی قسم کے لوگوں کو شہداء میں شامل فرمایا ہے۔ امام رازی نے سورۃ آل عمران آیت 18سے استدلال کیا ہے کہ عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بھی شہداء میں شمار ہوں گے۔ ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“ (رواہ الترمذی : بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، حدیث صحیح) (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ) (صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء) ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِیْتَۃَ السَّوْءِ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَۃِ، قال ابو عیسیٰ حدیث حسن غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں اپنی طرف سے اجر دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ صدقہ کرنے سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی مشکلات سے نجات ملتی ہے۔ آخرت میں اسے اجرِعظیم کے ساتھ ایک نور عطا کیا جائے گا جس کی روشنی میں چل کر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو ” اللہ“ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کیے وہ ” اللہ“ کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ 2۔ صدیقین اور شہداء کے لیے بہترین اجر ہوگا۔ 3۔ صدیقین اور شہداء کے لیے محشر کے میدان میں ہر جانب روشنی ہوگی۔ 4۔ ” اللہ“ کی آیات کا انکار اور ان کی تکذیب کرنے والے جہنم میں داخل ہوں گے۔ تفسیربالقرآن : صدیقین اور شہداء کا انجام اور مقام : 1۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء :69) (الحشر :8) (الاحزاب :24) (المائدۃ:119) (الحجرات :15) (البقرۃ:154) (آل عمران :169) (آل عمران :170)