سورة الواقعة - آیت 45

إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جہنمی وہ لوگ ہوں گے جو اس سے پہلے خوش حال تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 45 سے 51) ربط کلام : بائیں ہاتھ والوں کے جرائم اور انجام۔ ہائیں ہاتھ والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوگی جو دنیا میں خوش حال اور مال دار تھے، یہی لوگ معاشرے میں اکثر برائیوں کے موجد تھے، مالدار ہونے کے باوجود لوگوں کے حقوق غصب کرتے تھے اور غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر آسمانی کتاب میں لوگوں کے حقوق غصب کرنے سے منع کیا ہے اور غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور زیر دست لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے، خوش حال اور مال دار لوگوں کے مال میں کمزور لوگوں کا حق رکھا گیا ہے (الذاریات :19) لیکن جہنم میں جانے والے مجرم کمزور لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے جس کا وہ جہنم میں اقرار کریں گے۔ (المدثر :44) بائیں ہاتھ والوں کا جہنم میں جانے کا سب سے بڑا سبب یہ ہوگا کہ جہنمی بڑے بڑے گناہوں پر قولاً یا عملاً اصرار کیا کرتے تھے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانا ہے جسے شرک کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ مشرک کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ (النساء :116) مشرک کی عادت ہے کہ جب بھی اسے شرک سے منع کیا جائے تو وہ اس پر اصرار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر لوگ بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو میں ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ ازخود معاف کردوں گا۔ (النساء :31) جہنم میں جانے والوں کا تیسرا بڑا گناہ یہ ہوگا کہ دنیا میں جب بھی انہیں قیامت سے ڈرایا جاتاتو وہ کہتے تھے کہ کیا ہم مرجائیں گے اور ہماری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گی تو پھر ہمیں اٹھایا جائے گا؟ کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھاے جائیں گے؟ قرآن مجید نے اس باطل عقیدہ کی تردید کے لیے درجنوں دلائل دیئے ہیں لیکن قیامت کے منکر انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (ﷺ) انہیں فرمائیں کہ یقیناً تمہارے پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک دن ضرور جمع کیا جائے گا۔ جس کا ایک وقت مقرر ہے۔ جس میں آگا پیچھا نہیں ہوگا۔ ( یونس :49) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ الْکَبَائِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) (رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اپنے مال سے کمزوروں کا حق ادا نہ کرنے والے مال دار جہنم میں جائیں گے۔ 2۔ شرک اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرنے والے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ 3۔ کوئی مانے یا انکار کرے قیامت ضرور برپا ہوگی کیونکہ اس کا ایک دن اور وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مال میں بخل، گناہوں پر اصرار اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا : 1۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ :34) 2۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ نہیں رکھ سکتا۔ (ہمزہ :3) 3۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج :9) 4۔ ” اللہ“ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم :16) 5۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان :11) 6۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ (النحل :36) 7۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف :25) 8۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور :11) 9۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعہ :92)