سورة محمد - آیت 4

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو ان کی گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تو قیدیوں کو مضبوطی سے باندھ لو، اس کے بعد احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔ تمہیں یہ کرنا چاہیے۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا مگر یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 4 سے 6) ربط کلام : کفار باطل کی پیروی کرتے ہیں اس لیے مومنوں کافرض ہے کہ جب ان کے ساتھ مقابلہ ہو تو وہ میدان جنگ جیتنے کی کوشش کریں۔ اس سورت کے نزول سے پہلے سورۃ حج میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں قتال کرنے کی اجازت مل چکی تھی اس لیے اس سورت میں مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ہوا کہ اے مسلمانو! جب کفار کے ساتھ تمہاری مڈھ بھیڑ ہو تو پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ ان کی گردنیں کاٹو یہاں تک کہ جب ان کے سرغنوں کو قتل کرچکو اور لڑائی ختم ہوجائے تو ان کے قیدیوں کو مضبوطی کے ساتھ باندھ لو۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دو یا ان سے فدیہ وصول کرو۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آزماتا ہے۔ یادرکھو! جو اس کے راستے میں شہید ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ضائع نہیں کرتا، جو ان میں باقی بچتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کے معاملات کو درست فرماتا ہے۔ انہیں اس جنت میں داخل فرمائے گا جس کا تعارف اس نے مومنوں کو کروادیا ہے۔ ان آیات میں قتال فی سبیل اللہ کا ایک طریقہ بتلایا ہے کہ جب کفار کے ساتھ مسلمانوں کا آمنا سامنا ہو تو انہیں پوری قوت اور جوش و خروش کے ساتھ کفار پر حملہ آور ہونا چاہیے تاکہ کفار کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے۔ مجاہدوں کو جنگ کے دوران اس جوش اور ولولے سے لڑنا چاہیے کہ کفار کی گردنیں اڑا دینی چاہئیں اور جو ان کے قیدی ہاتھ لگیں انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھ لینا چاہیے۔ قیدیوں کے ساتھ سلوک : فتح کی صورت میں مسلمانوں کو اپنے حالات کے مطابق قیدیوں کے ساتھ چار باتوں میں کوئی ایک بات اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ 1۔ احسان کرتے ہوئے قیدیوں کو چھوڑدیا جائے۔ 2۔ قیدیوں سے فدیہ قبول کیا جائے۔ 3۔ آپس میں تبادلہ کرلیا جائے۔ 4۔ قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ نبی (علیہ السلام) نے حالات کے مطابق اپنے دور میں مختلف موقعوں پر چاروں طریقوں پر عمل کیا ہے۔1۔ غزوہ بدر کے اکثر قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ جن میں چند قیدیوں کو صحابہ کو تعلیم دینے کے بدلے میں رہا کردیا گیا۔ 2۔ غزوہ حنین کے موقع پر سینکڑوں قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد فرمادیا۔3۔ فتح مکہ کے موقع پر ” اءِمَّۃُ الْکُفْر“ کے چار آدمیوں کو قتل کیا اور باقی کے لیے آزادی کا اعلان فرمایا۔4۔ بنو ثقیف کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ شہداء کا مقام : ” اللہ“ کا فرمان ہے کہ جو لوگ اس کے راستے میں قتل کیے گئے ” اللہ“ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ اعمال ضائع نہ کرنے سے پہلی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا جس جنت کا اللہ تعالیٰ نے قرآان مجید میں مومنوں کو تعارف کروایا ہے۔ شہیدوں کے اعمال ضائع نہ کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام اور کام کو مدت مدید تک قائم رکھتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں یہ نعرہ ایجاد ہوا۔ شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے (اَوَّلُ مَایُہْرَاقُ مِنْ دَمِ الشَّہِیْدِ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ اِلَّا الدَّیْنَ.) (صحیح الجامع للالبانی، رقم حدیث :2578) ” پہلے قطرہ خون سے شہید کے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار فرمائیں گے اے جنت میں رہنے والو! جنتی کہیں گے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں آپ کے حضور پیش ہیں۔ ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تم خوش ہو؟ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! ہم کیوں نہ خوش ہوں ؟ تو نے تو ہمیں ایسی نعمتیں عطاکی ہیں جو آپ نے اپنی مخلوق میں کسی کو عطا نہیں کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمہیں اس سے بھی بہتر نعمت عطانہ کروں؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار! اس سے بڑھ کر اور نعمت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر ہمیشہ کے لیے خوش ہوں اب کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔“ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) مسائل: 1۔ میدان کارزار میں مجاہدین کو پوری قوت کے ساتھ کفار کی گردنیں کاٹنی چاہییں۔ 2۔ جنگ ختم ہو تو قیدیوں کو اچھی طرح گرفتار کرلینا چاہیے۔ 3۔ مسلمانوں کو قیدیوں کے ساتھ مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی مسلمانوں کی مدد کرنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ میں آزماتا ہے۔ 6۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہیدہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ضائع نہیں کرتا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کے معاملات درست فرماتا ہے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو قیامت کے دن اس جنت میں داخل فرمائے گا جس کا انہیں قرآن مجید میں تعارف کروایا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: الجنّت کامختصر تعارف : 1۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ اس میں انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47، 48) 2۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد :35) (الواقعہ : 28تا30) 3۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ :23) (حٰم السجدۃ:31) 4۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے پائیں گے۔ ( الانبیاء :102)