سورة الأحقاف - آیت 35

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے لہٰذا کفار کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوگا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے، بات پہنچا دی گئی اب نافرمان لوگوں کے سوا کوئی ہلاک نہیں ہو گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : کفار نے بالآخر اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جانا ہے اور وہاں انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی اس لیے اے نبی (ﷺ) کو اپنا کام اولوالعزم رسولوں کی طرح مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔ نبی کریم (ﷺ) کی صبح وشام کوشش تھی کہ لوگ جہنم کی ہولناکیوں سے بچ جائیں لیکن مخالفینِ اسلام کی حالت یہ تھی کہ وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے اس صورتحال پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا فطری امر تھا جس بناء پر آپ (ﷺ) پریشان ہوجاتے۔ اس پر آپ کو موقعہ بموقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں یہ بات سمجھائی گئی کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ کا کام حق بات پہچانا اور سمجھانا ہے منوانا نہیں۔ ﴿لَسْتَ عَلَيْـهِـمْ بِمُصَيْطِرٍ﴾ (الغاشیہ :22) ” آپ ان پر نگہبان نہیں۔“ ﴿فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ﴾ (الرعد :40) ” آپ کے ذمے پہنچادینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔“ جب آپ (ﷺ) کا کام حق بات پہنچانا ہے تو پھر آپ کو اولو العزم انبیاء کی طرح اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اگر یہ لوگ آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو اس کے رد عمل میں عجلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی صبر اور عزم کا تقاضا ہے۔ جہاں تک ان کے انجام کا معاملہ ہے ایک دن آئے گا جب یہ سب کچھ دیکھ لیں گے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے خوف اور وحشت کی وجہ سے ان کے اوسان خطا ہوجائیں گے جس بناء پر یہ کہیں گے کہ دنیا میں دن کا کچھ حصہ ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہلاکت ان کا مقدر ہوگی اور نافرمان لوگ ہلاک ہی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے نافرمانوں کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ جب انہیں جہنم کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو ان کی حالت یہ ہوگی کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں نیلی پیلی ہوجائیں گی اور ڈرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں صرف دس دن ٹھہرے تھے۔ ﴿یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًایَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا﴾ (طٰہٰ: 102، 103) ” اس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔“ ﴿وَ یَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّاَ اعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَ مَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ﴾ (یونس :45) ” اور جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا گویا وہ نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی، وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ بے شک وہ لوگ خسارے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔“ اس آیت مبارکہ میں نبی کریم (ﷺ) کو ” اولوالعزم رسولوں“ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کے تمام رسول صبر وشکر کے پیکر، عزم واستقلال کے پہاڑ اور بے مثال مستقل مزاج تھے۔ لیکن ان میں بھی ایسے رسول ہیں جو عزم واستقلال کے حوالے سے انتہائی ارفع مقام پر فائز تھے۔ مفسرین نے جن انبیاء کرام کو سرفہرست شمار کیا ہے ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال لوگوں کو سمجھانے میں صرف فرمائے۔ ان کے بعد ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں جن کی قربانیوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ہیں جو ایک طرف فرعون اور اس کے لشکروں سے لڑتے رہے اور دوسری طرف اپنے ساتھیوں یعنی بنی اسرائیل کے ہاتھوں پریشان رہے لیکن کسی لمحہ ان کے پایہ استقلال میں تزلزل واقع نہ ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ ( علیہ السلام) کی باری آتی ہے جو یہودیوں کے ہاتھوں بے انتہا پریشان ہوئے اور آخری اور نازک ترین آزمائش کے وقت چند ساتھیوں کے علاوہ باقی لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے اس صورتحال میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچاتے رہے۔ جہاں تک نبی معظم (ﷺ) کے صبرو استقلال اور عزم وہمت کا معاملہ ہے۔ اس کی مثال نہ پہلے پائی جاتی ہے اور نہ ہی قیامت تک دیکھی جائے گی۔ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () لَقَدْ أُوذِیتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَدٌ وَلَقَدْ أُخِفْتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُخَافُ أَحَدٌ۔۔) (رواہ ابن ماجہ : باب فضائل بلال، قال الشیخ البانی صحیح) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں مجھے سب سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں اتنی تکلیفیں کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ مجھے اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ڈرایا گا اتنا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا۔“ مسائل: 1۔ دین کی دعوت اس قدر مشکل ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کو بھی صبر اور حوصلہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) تمام کے تمام عزم وہمت کے پیکر تھے لیکن کچھ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص عزم وہمت کا نمونہ بنایا تھا۔ 3۔ کفار کے بارے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے ایک دن آئے گا کہ یہ اللہ کے عذاب کو اپنے سامنے پائیں گے۔ 4۔ رب ذوالجلال کے جلال اور جہنم کے عذاب کو دیکھ کر مجرم دنیا میں رہنے کی مدت بھول جائیں گے۔ 5۔ نافرمان قوم کا انجام ہلاکت ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نافرمان اقوام کا دنیا اور آخرت میں انجام : 1۔ قوم نوح کو غرق کردیا گیا۔ (نوح :25) 2۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ :50) 3۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود :67) 3۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقہ :6) 5۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ :65) 5۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر :74) 7۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت :40)