وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیزجو ہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 24 سے 27) ربط کلام : اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص دنیا کی لذات پر اس قدر فریفتہ ہوجاتا ہے کہ اس کا مرنے کو جی نہیں چاہتا اس وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا صرف دنیا میں ہے موت کے بعد نہ ہم نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دینا ہے۔ انسان اپنے نظریات اور جذبات کو اس وقت الٰہ کا درجہ دیتا ہے جب دنیا پر بے حد فریفتہ ہو کر وہ حقیقی الٰہ کو بھول جاتا ہے۔ اس وجہ سے نفس کا بچاری سمجھ بیٹھتا ہے کہ مرنے کے بعد نہ میں نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے حساب دینا ہے۔ اس بنیاد پر کہتا ہے کہ بس ہم نے اسی دنیا میں جینا اور مرنا ہے۔ ہماری زندگی اور موت کا معاملہ زمانے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے زمانے کے ردّ بدل کی وجہ سے ہم جیتے اور مرتے ہیں۔ اس کے سوا ہماری زندگی اور موت کا کوئی مالک نہیں۔ ان کے اپنے اٹکل پچو کے سوا اس نظریے کی کوئی علمی دلیل نہیں۔ جب ان کے سامنے موت و حیات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر قیامت کے بارے میں سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلاؤ؟ انہیں فرمائیں کہ زمانہ یا کوئی اور موت و حیات کا مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے اور وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ موت دینے کے بعد پھر اسی نے قیامت کے دن تمہیں اٹھانا اور اکٹھا کرنا ہے۔ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ زمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ کے پاس ہے جس دن قیامت برپا ہوگی۔ جھوٹے نظریات رکھنے اور برے اعمال کرنے والے لوگ نقصان پائیں گے۔ یہاں پہلی آیت میں مادہ پرست لوگوں کا دعویٰ اور نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری موت و حیات زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جسے نہ عقل مانتی ہے اور نہ ہی علم تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو جدّت پسند اور ترقی یافتہ سمجھنے والے لوگ اہل مکہ کی جہالت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جو سائنسدان کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مادہ میں از خود یہ صلاحیت ہوتی ہے جس وجہ سے اس میں خود بخود تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ جس کے لیے وہ بگ بینگ (BIG BANG) کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات ایک دھماکہ کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے اور اس کی وجہ سے ہی مادہ معرض وجودآیا۔ مادہ کے بارے میں جس سائنسدان کو سائنس کی دنیا کا باپ تصور کیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن (EIEN STIEN) اس کانظریہ ہے کہ مادہ کو نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی یہ ختم ہوگا۔ (MATTER CAN NIETHER BE CREATED NOR DESTROYED) (تفصیل کے لیے فہم القرآن: جلد2: الاعراف : 54کی تفسیر دیکھیں) آسمانی کتابوں پر یقین رکھنے والے عیسائی، یہودی اور مسلمان سائنسدان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس کائنات کی ابتدا کرنے والا ” اللہ“ ہے اور اسی کے حکم سے بگ بینگ (BIG BANG) ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا کائنات کو قائم رکھے گا اور جب چاہے گا اسے فنا کر ڈالے گا۔ اس کے بعد قیامت قائم کرے گا جس میں لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ، یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ، بِیَدِی الأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ) [ رواہ البخاری : باب ﴿وَمَا یُہْلِکُنَا إِلاَّ الدَّہْرُ ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں۔ تمام اختیارات میرے پاس ہیں۔ میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں۔“ جہاں تک قیامت کا انکار کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں انسان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور ہمیں اس پر اعتراض کیے بغیر من و عن ایمان لانا چاہیے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے بڑے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کو زندہ فرمایا اور اس زمانے کے لوگوں نے انہیں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن اس کے باوجود قیامت کا انکار کرنے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ اگر ان لوگوں کے سامنے مردے زندہ کیے جائیں تو یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (الاعراف :11) مسائل: 1۔ مادہ پرست لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی موت اور زندگی صرف زمانے کے مدّ و جزر کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ 2۔ زمانے کو موت وحیات کا سبب قرار دینے والوں کے پاس عقلی اور علمی دلیل نہیں ہوتی۔ 3۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی نے قیامت کے دن سب کو اکٹھا کرنا ہے۔ 5۔ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی قیامت برپا کرے گا۔ 6۔ قیامت کو جھٹلانے والے قیامت کے دن لامتناہی نقصان پائیں گے۔ تفسیربالقرآن : انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کا زندہ کیا جانا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ :260) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف :155) 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ:243) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ :110) 5۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف :25)