سورة الجاثية - آیت 16

وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی اور ہم نے انہیں طیب رزق سے نوازا اور دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 16 سے 17) ربط کلام : جن لوگوں نے ایام اللہ کی پرواہ نہ کی ان میں بنی اسرائیل بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید نے جن اقوام کے حالات اور واقعات سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں ان میں سرفہرست بنی اسرائیل ہیں۔ بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم کی انتہا کر رکھی تھی۔ فرعون ان کے مردوں کو قتل کرتا اور ان کی بہوبیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو فرعون کے عذاب اور اس کی غلامی سے نکالنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو رسول منتخب کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عظیم اور طویل جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی صدیوں تک بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت، نبوت اور رز قِ حلال کی فراوانی سے سرفراز فرمایا اور بنی اسرائیل کو طویل عرصہ تک پوری دنیا میں عزت و عظمت کے ساتھ ہمکنار کیا۔ انہیں راہ راست پر لانے اور اس پر قائم رکھنے کے لیے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان کی راہنمائی فرمائی۔ مگر یہ قوم بغاوت اور سرکشی ہی اختیار کرتی رہی۔ جس کا بنیادی سبب ان کا مفاد اور آپس میں حسد و عنادتھا۔ آپ کا رب قیامت کے دن یقیناً ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ کسی قوم کی راہنمائی اور سربلندی کے لیے چار چیزیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ اگر قوم اخلاص نیت اور پوری ہمت کے ساتھ ان باتوں کا خیال رکھے تو وہ صدیوں تک لوگوں پر اپنی عظمت اور سطوت کا سکہ جما سکتی ہے۔ 1۔ قوم کی راہنمائی کے لیے آسمانی کتاب کا اصلی حالت میں موجود ہونا۔ 2 ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی صورت میں قیادت کا پایا جانا۔3 ۔اقتدار اور اختیار کا حاصل ہونا۔ 4 ۔رزق حلال اور جائز وسائل کی فراوانی ہونا۔ جس قوم کے پاس یہ چار چیزیں موجود ہوں وہ دنیا میں ضرور عزت کی مالک ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو صدیوں تک یہ نعمتیں عطا فرمائیں۔ مگر انہوں نے ہر دور میں اپنے انبیاء کا مذاق اڑایا اور حق بات کے ساتھ اختلاف کیا اور حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کے لیے مغضوب قرار دیا اور حضرت داود (علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے ان پرلعنت برسائی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو الکتاب، حکومت، نبوت اور وا فرمقدار میں رزق حلال عطا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہزاروں سال لوگوں پر عزت و عظمت عطا فرمائی۔ 3۔ بڑے بڑے معجزات دیکھنے اور واضح دلائل پانے کے باوجود بنی اسرائیل حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیربالقرآن : انبیاء اور حق کے ساتھ اختلاف کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہوئے۔ (آل عمران :181) 2۔ انبیاء کے قاتل اور گستاخ ٹھہرے۔ (آل عمران :21) 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ:61) 4۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ:18) 5۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ: 83تا85) 6۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء :46)