وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اے نبی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں۔ یقیناً آپ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 52 سے 53) ربط کلام : قرآن مجید بھی وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ وحی جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آیا کرتا تھی۔ اس لیے بالخصوص جبرائیل امین (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے حکم سے آپ (ﷺ) کی طرف جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے قرآن نازل کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ“ اَلْکِتَابُ“ اور ” اَلْاِیْمَانُ“ کیا ہوتا ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے نور ہدایت بنایا ہے۔ اس کے ساتھ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں کو ہدایت کے ساتھ سرفراز فرماتا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! یقین جانو! کہ آپ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والے ہیں۔ یہ صراط مستقیم اللہ کا متعین کردہ ہے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ سب کام اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اور وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والاہے۔ سورۃ کے اختتام میں ایک مرتبہ پھر بالواسطہ کفار کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے جو کہتے تھے کہ نبی (ﷺ) نے قرآن اپنی طرف سے تیار کرلیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کے دل پر نازل کیا ہے۔ اس بات کو ان الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَاِِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ﴾[ الشعراء : 192تا196] ” یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے لے کر امانت دارفرشتہ آیا اور اس نے اسے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو ڈرانے والے ہیں۔ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے اور پہلی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔“ اسی فرمان کی بنیاد پر امت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید القاء، خواب یا کسی اور ذریعے سے نہیں بلکہ سارے کا سارا قرآن جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نازل ہوا۔ نزول قرآن سے پہلے آپ (ﷺ) نہیں جانتے تھے کہ قرآن اور اس کی دعوت یعنی ایمان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نور قرار دیا ہے۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور یہی نبی آخرالزمان (ﷺ) کی بعثت کا مقصد تھا اور ہے کہ آپ (ﷺ) قرآن کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ یہاں ہدایت سے مراد قرآن مجید کی تعلیم اور راہنمائی ہے۔ (عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ اأنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض)، اِشْتَکٰی فَدَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ (ﷺ) یَعُوْدُہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدُکَ یَا عُمَرُ ؟ فَقَالَ اأرْجُوْ وَأَخَافُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (ﷺ) مَا اجْتَمَعَ الرَّجَاءُ وَالُخَوْفُ فِیْ قَلْبِ مَؤْمِنٍ إِلَّا اأعْطَاہ اللّٰہُ الرَّجَاءَ وَأَمِنَہُ الِخَوْفَ) [ رواہ البیھقی : باب فی الرجاء من اللہ تعالی] ” سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیمار ہوگئے تو نبی اکرم (ﷺ) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ (ﷺ) نے استفسار فرمایا اے عمر! اپنے آپ کو کیسے محسوس کررہے ہو؟ عمر (رض) نے جواب دیا مجھے امید بھی ہے اور خوف بھی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ مومن کے دل میں امید اور خوف دونوں جمع ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری کردیتے ہیں اور اسے خوف سے محفوظ فرمالیتے ہیں۔“ (عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ باللّٰہِ رَبًّا وَّبِا لإِْسْلَام دینًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا) [ رواہ مسلم : باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا] ” حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (ﷺ) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا اس نے ایمان کا لطف پالیا۔“ اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار اقسام ہیں : 1 ۔طبعی اور فطری ہدایت 2 ۔الہامی ہدایت 3 ۔توفیقی ہدایت 4 ۔ہدایت وحی۔ طبعی اور فطری ہدایت : چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اسی اصول کی روشنی میں رخ بدلتی اور چلتی ہیں۔ بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں یہاں تک کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں۔ فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے قدموں میں پڑجاتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا اور انسان کا نومولود ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طبعی اور فطری ہدایت کی قرآن نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے : ﴿وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ﴾ [ البلد :10] ” ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔“ الہامی ہدایت : الہام وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے بھی وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے۔ اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔ ( النحل :68) ہدایت بمعنٰی توفیق اور استقامت : ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماء فی جامع الدعوات] ” اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ رکھ۔“ وحی اور حقیقی ہدایت : یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دوشکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم وملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی ظاہری حالت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری اس کی روح اور اصل۔ اسے قرآن نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے۔ اخلاص کے اثرات دل پر اثر انداز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوگی جس کا بدلہ جنّت ہے۔ کردار پر مرتب ہوں گے تو نفس اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہوگی جس سے آدمی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی۔ صراط مستقیم کا تعارف : ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کاسیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں ان میں سے ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ (ﷺ) نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔“ [ مسند احمد : باب مسند عبد اللہ بن مسعود] قرآن مجید نے اس راستے کو نبی (ﷺ) کا راستہ قرار دیا اور اسے بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔ ﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ [ یوسف :108] ” آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اور میرے پیرو کار بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔“ ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے ایسا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ہم نے کہا اللہ کے رسول یقیناً یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے اس لیے آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں واضح دین پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح ہے ہلاک ہونے والے کے علاوہ کوئی اس سے نہیں ہٹے گا تم میں سے جو زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا تم نے جو میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ جانا اس کو لازم پکڑنا اور اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ مومن نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں بھی لے جایا جائے وہ چلا جاتا ہے۔“ [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب المقدمۃ،] تفسیربالقرآن :صراط مستقیم اور اس کے سنگ میل : 1۔اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج :54) 2۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ:213) 3۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : 51، مریم :36) 4۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام :87) 5۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰس :61) 6۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام :153)