سورة الشورى - آیت 51

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : انسان ہی نہیں بلکہ انسانوں کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی کوئی اختیارات نہیں رکھتے تھے۔ یہاں تک وہ اللہ تعالیٰ سے برائے راست بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سورۃ مبارکہ کا آغاز توحید و رسالت سے ہوا ہے۔ اس کا اختتام بھی توحید ورسالت کے عنوان پر ہورہا ہے۔ عام انسان نہیں بلکہ انسانوں کے سردار جنہیں نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ان کی بے اختیاری کا عالم یہ تھا کہ وہ بھی اللہ جلّ جلالہٗ سے براہ راست بات کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی کسی انسان میں یہ سکت ہے کہ وہ بلاواسطہ اپنے رب کے ساتھ ہم کلام ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے ساتھ بھی کلام فرمایا اس پر وحی نازل فرمائی یا نور کے حجاب کے پیچھے اس سے کلام کیا یا فرشتہ بھیج کر اس تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت ہی بلند وبالا اور حکمت والاہے۔ اس ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے کلام کرنے کے تین طریقے ارشاد فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (ﷺ) کو تینوں طریقوں کے ساتھ ہی اپنے ارشادات سے سرفراز فرمایا۔ وحی کا لغوی معنٰی الہام، لکھا ہواپیغام، اشارہ کرنا، چھپا کر بات کرنا اور کسی بات پر آمادہ کرنا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِہِ رَسُول اللَّہِ () مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ۔۔) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔“ 2 ۔حجاب کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ حجاب میں رہتا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ اللہ اور نبی کے درمیان حجاب ہوتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ) [ رواہ مسلم : باب قولہ (علیہ السلام) (نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ)] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) سے پوچھا کیا آپ نے (معراج کی رات) اپنے پروردگار کو دیکھا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا؟ 3 ۔تیسری قسم کے بارے میں قرآن شہادت دیتا ہے کہ قرآن مجید جبرائیل امین کے ذریعے رسول اللہ (ﷺ) تک پہنچایا گیا ہے۔ ” بلاشک جبرائیل (علیہ السلام) نے ہی آپ (ﷺ) کے دل پر اللہ کے حکم سے کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔“ ( البقرۃ:97) ” یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے امانت دارفرشتہ لے کر آیا اور اس نے اسے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو ڈرانے والے ہیں۔ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے۔“ (الشعراء : 192تا195) کفار کا مطالبہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بات کرتا ہے ہم سے کیوں بات نہیں کرتا، اس کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیرے غیرے کے ساتھ بات نہیں کرتا وہ نبی کے ساتھ بھی براۂ راست بات کرنے کی بجائے صرف تین صورتوں میں بات کرتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی بشر کے ساتھ براہ راست بات نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی کو بھی القاء کرسکتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ وحی کے ذریعے بات کرتا تھا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ پردے میں گفتگو فرمائی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کے ذریعے انبیائے کرام (علیہ السلام) تک اپنا پیغام پہنچاتا تھا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا اور حکمت والاہے۔ تفسیربالقرآن : وحی کے مختلف طریقے : 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی :51) 2۔ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف القاء کیا کہ پہاڑوں اور درختوں پر اپنے گھر بنائے۔ ( النحل :68) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلائے۔ ( القصص :7) 4۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اپنا پیغام انبیاء تک پہنچایا۔ (الشعراء :193)