لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ
اللہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے
فہم القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور کسی دوسرے کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں دیا۔ ہدایت اور ہر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ یہاں تک انسان اپنی اولاد کے بارے میں بھی اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر بانجھ رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد رکھتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور نہ ہی بانجھ کو کوئی اولاد دے سکتا ہے۔ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود مشرک کسی کو داتا کہتا ہے اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ جس شخصیت کو داتا کہا جاتا ہے اس کا اپنا حال یہ تھا کہ انہوں نے دو سے زائد شادیاں کیں مگر زندگی بھر بیٹے اور بیٹی سے محروم رہے۔ (سوانح علی ہجویری (رض)، مطبع محکمہ اوقاف پنجاب) ہدایت کے بارے میں بھی لوگوں کی یہی حالت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ نہایت صالح، کچھ لوگ ملے جلے کام کرنے والے اور کچھ بالکل ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔