سورة الشورى - آیت 36

فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 36 سے 37) ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کے احکام اور ارشادات کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا سازو سامان قلیل اور عارضی ہے۔ اس لیے ” اللہ“ کے نیک بندے کبیرہ گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کے ساتھ معاف کردینے کا اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ انسان غصے کی حالت میں دوسرے پر زیادتی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ قتل نفس کا واقعہ بھی پیش آجاتا ہے جو کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ جس دنیا کے اسباب و وسائل پر لوگ اتراتے اور اپنے رب کے احکام کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اس دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے اسباب ووسائل تھوڑے اور نہ پائیدار ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کی زندگی بھی تھوڑی اور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا ومافیہا سے بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ہمیشہ کی بقا اور خیر کثیران لوگوں کو حاصل ہوگی جو اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان رکھتے ہیں اور دنیا کے اسباب وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے مسبب الاسباب پر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں۔ توکل کا یہ معنٰی نہیں کہ انسان وسائل کو استعمال کرنے سے اجتناب کرے اور ان پر ایک حد تک اعتماد کرنے کی بجائے بے اعتمادی کا شکار رہے۔ بے اعتمادی کا شکار آدمی نہ دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی منزل مقصود پاسکتا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ اپنی محنت اور وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رحمت پربھروسہ کرے۔ کیونکہ وہی وسائل دینے والا ہے اور اسی نے وسائل کو بروئے کار لانے کی توفیق دینے کے ساتھ انہیں مؤثر بناتا ہے۔ ایماندار لوگوں کے اوصاف میں نمایاں وصف یہ ہیں۔1 ۔اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے کبیرہ جرائم سے بچتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اس لیے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تو نافرمانی کے اعتبار سے یہ بڑے گناہ ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو کبیرہ گناہ سے بچا لیتا ہے اسے چھوٹے گناہ چھوڑنے مشکل نہیں رہتے۔ 2 ۔اللہ پر ایمان اور توکل رکھنے والے لوگ ہر قسم کی بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ فواحش سے مراد ہر وہ بری حرکت ہے جو شریف معاشرے میں ایک شریف انسان کو زیب نہیں دیتی۔ اس میں بھی وہی فلسفہ پنہاں ہے جس بنا پر بڑے گناہوں سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ جو شخص بڑی بے حیائی سے بچتا ہے اس کے لیے چھوٹی بے حیائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی بدکاری سے نفرت کرتا ہے تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ غیر محرم عورت کو اشارے کرے یا اس کے ساتھ آنکھ لڑانے کی کوشش کرے۔ کبیرہ گناہ : ” فرما دیجیے کہ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور ہرقسم کی بے حیائی کے قریب نہ جاؤ جو ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ یہ اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔“ (الانعام :151) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ الْکَبَائِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ 3 ۔جب انہیں غصہ آتا ہے تو بدلہ اور انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ غصہ انسان کی فطری کمزوری بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی۔ کیونکہ غصہ کے بغیر انسان اپنی عزت، جان اور آبرو کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کلّی طور پر غصہ کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ البتہ اس میں یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ جب کوئی صالح شخص غیر ارادی طور پر زیادتی کربیٹھے تو بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کردینا اللہ کے بندوں کا شیوہ ہونا چاہیے۔ نبی معظم (ﷺ) نے غصہ پر قابو پانے کے لیے یہ طریقہ اور ذکر بتلایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ۔۔ إِنَّ رَسُول اللَّہ () قَالَ لنَا إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَہُوَ قَائِمٌ فَلْیَجْلِسْ فَإِنْ ذَہَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلاَّ فَلْیَضْطَجِعْ) [ رواہ احمد : مسند ابی ذر الغفاری] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول (ﷺ) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم میں سے کسی کو کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو وہ بیٹھ جائے اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔“ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ () وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ () إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ () قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (ﷺ) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ : ”أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ“” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تو نے نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نہیں سنا ؟ اس نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ (یعنی میں نے سنا ہے اور اسے پڑھتا ہوں) “ مسائل : 1۔ لوگوں کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ تھوڑا اور ناپائیدا رہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان لوگوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ ہمیشہ رہنے والا اور دنیا سے بیش بہا بہتر ہے۔ 3۔ اللہ کے بندے ہر حال میں اپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ کے بندوے بڑے گناہوں، ہر قسم کی بے حیائی سے بچتے اور ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ تفسیربالقرآن : توکل اور اس کے فوائد : 1۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ:10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 5۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129) 6۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159)