سورة الشورى - آیت 20

مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا میں ہی دے دیتے ہیں۔ مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ” اللہ“ ہی رزق دینے والا ہے۔ لیکن اس نے انسان کو رزق کے حصول کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ انسان وہی کچھ پائے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا۔ (النّجم : 39) دنیا اور آخرت کے حصول کو ” حرث“ کہا گیا ہے۔ ” حرث“ کا معنٰی کھیتی ہے۔ جس میں ہر قسم کی فصل اور پودا جات شامل ہیں۔ کھیتی پر غور فرمائیں تو اس سے غلّہ حاصل کرنے میں زمیندار کو کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار بار ہل چلاکر زمین کو بیج کے قابل بنانا، صحیح وقت پر اسے سیراب کرنا، جڑی بوٹیوں اور کیڑوں مکوڑوں سے اس کی حفاظت کرنا، مناسب مقدار میں کھاد لگانا اس طرح بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد انسان لقمہ کھانے کے قابل ہوتا ہے۔ یہی حال پھل اور میوہ جات کا ہے کہ کتنی محنت کے بعد انسان اس قابل ہوتا ہے کہ ان سے لطف اندوزہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ” حَرْثَ“ کا لفظ بول کر انسان کو دنیا اور آخرت کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ بے شک دنیا کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ لیکن آخرت کی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہوگی جو اس کے لیے اخلاص اور قرآن و سنت کے مطابق کوشش کرے گا۔ آخرت کی کامیابی کا حصول دنیا کی کامیابی کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آخرت کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جودنیا کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اسے دنیا کا حصہ دیں گے۔ لیکن جس نے صرف دنیا کے لیے کوشش کی اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ نبی (ﷺ) نے آخرت کی کھیتی کے اضافہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کی محنت کے مطابق اسے دنیا اور آخرت کا صلہ دیتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کو آخرت میں اس کی محنت سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔ 3۔ جس نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن : دنیا اور آخرت کا تقابل : 1۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام :32) 2۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 3۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن :39) 4۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید :20) 5۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ:38) 6۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص :60) 7۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران :185) 8۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف :46) 9۔ مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن :15) 10۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء :77) 11۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ:17)