شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرو یہی بات مشرکین کو سخت ناگوار ہے جس کی طرف اے محمد تم انہیں دعوت دے رہے ہو، اللہ جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسے دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس طرح لوگوں کی روزی کا بندوبست کیا ہے اسی طرح ہی اس نے ان کی راہنمائی کا انتظام فرمایا ہے۔ انسان کا وجود بنیادی طور پر دوچیزوں پر مشتمل ہے۔ اس کا جسم مٹی سے بنایا گیا ہے۔ جسم کی بنیادی ضروریات مٹی کے ساتھ تعلّق رکھتی ہیں۔ انسان کے وجود کو جو چیز حرکت میں رکھتی ہے اس کا نام ” اَلرُّوْحُ“ ہے۔ ” اَلرُّوْحُ“ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہے۔ جسے اہل علم نے ملکوتی چیز قرار دیا ہے۔ ” اَلرُّوْحُ“ کی خوراک اور راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ جو نبی آخر الزماں (ﷺ) پر مکمل ہوا۔ اس راہنمائی کا نام ” اَلدِّیْنُ“ ہے۔ جس کے بنیادی اصول اور مسائل ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ البتہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کی شروعات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اس کے لیے مشہور مثال یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے دور میں بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا۔ جونہی انسان کی نسل افزائش پذیر ہوئی تو بہن بھائی کا نکاح حرام قرار پایا۔ پہلی شریعتوں میں ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت دو بہنیں جائز قرار پائیں۔ لیکن شریعت محمدی (ﷺ) میں اسے بھی ناجائز قراردیا گیا۔ پہلی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا اب کلیتاً حرام ہے۔ لہٰذا شرع سے مراد وہ تشریح اور تفسیر ہے جس سے دین کے تقاضے پورے ہوتے ہیں یہ تشریح اور تفصیل بھی وحی کے ذریعے نبی کو بتلائی اور سمجھائی جاتی ہے۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ مجھے قرآن اور اس کی مثل ایک اور چیز بھی عطا کی گئی ہے۔ اسے ہم حدیث رسول (ﷺ) کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی دین تمہارے لیے پسند فرمایا ہے جس کی وحی آپ (ﷺ) پرکی گئی ہے۔ اس طرح ہی آپ (ﷺ) سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام)، موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر کی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا اور ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ بازی پیدا نہ کرو۔” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے جس کی دعوت مشرکین پر بڑی گراں گزرتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی توحید کی سمجھ دے دے اسے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ کرلیتا ہے۔ جو شخص بھی خلوص نیت کے ساتھ اللہ سے اس کی توحید کی راہنمائی چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضرور راہنمائی کرے گا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ہدایت دیتا ہے کیونکہ وہ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔ (العنکبوت : 69) اس آیت میں جودوسری بات سمجھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ” اَلدِّیْنُ“ میں تفرّقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ تفرّقہ سے بچنے کے لیے جو اصول سمجھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے امیر کا حکم مانو ! اگر امیر کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کردو۔ (النساء : 59) اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید اور نبی (ﷺ) کے فرمان کے سامنے پیش کرو۔ یہ اس قدر سادہ اور ٹھوس اصول ہے کہ نیت میں اخلاص اور رب کی رضا مطلوب ہو تو آج بھی اس میں ہمارے اختلافات کا حل موجود ہے۔ لہٰذا ہر شخص اور فرقہ اپنے عقیدہ اور عمل کو بالخصوص قرآن مجید اور بخاری و مسلم کے سامنے پیش کرے۔ بالیقین امت میں اٹھانویں فیصد اختلافات دور ہوجائیں گے۔ مگر یہ بات مشرک اور مفاد پرست علماء اور دنیادار لوگوں کو پسند نہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے معاملات کو قرآن و سنت کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جس وجہ سے امت اختلافات کا شکار ہے۔ اختلافات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پورے اخلاص کے ساتھ دین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ حقیقتاً یہی اس کے قیام کا معنٰی ہے جو پورا ہونا چاہے۔ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) [ مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب] ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز عطا کی گئی ہے۔ خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔“ مسائل : 1۔ ” اَلدِّیْنُ“ ہمیشہ سے ایک ہے اور اس کی تشریح حدیث کی شکل میں موجود ہے۔ 2۔ قرآن مجید کی طرح حدیث بھی وحی کی صورت میں نازل کی گئی۔ 3۔” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے۔ 4۔ اللہ کی توحید مشرکین پر بڑی گراں گزرتی ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ 6۔ جو شخص ” اللہ“ کی طرف خلوص نیت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورراہنمائی کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن : مشرک کو توحید خالص اور دین کی دعوت گراں گزرتی ہے : 1۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود : 62) 2۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ: 104) 3۔ جب ان کے پاس اللہ وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ (الزمر : 45) 4۔ جب مشرکین کو توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : 35) 5۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ (النساء : 61) 6۔ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (المطففین : 13) 7۔ جب انہیں قرآن کی پیروی کے لیے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں ہمیں اپنے باپ دادا کافی ہیں۔ (البقرۃ: 170) 8۔ جہنمیوں کو جواب دیا جائے گا کہ جس حالت میں تم مبتلا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب صرف ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ وبرتر کے اختیار ہیں۔ (المومن : 12) 9۔ اس اللہ کو چھوڑ کر لوگ ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچاسکتے اور کافر اپنے رب کا مخالف بنا ہوا ہے۔ (الفرقان : 55)