لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اسے ہر چیز کا علم ہے
فہم القرآن : ربط کلام : جس ” اللہ“ جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس کے اختیارات دائمی اور لا محدود ہیں اور اسی کے پاس زمین و آسمانوں کے خزانوں کا کنٹرول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہی زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ وہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے وہ ہر کسی کے مستقل قیام اور عارضی ٹھہراؤ کو جانتا ہے اور اس نے ہر بات لوح محفوظ میں لکھ رکھی ہے۔ (ھود : 6) قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اے انسان! تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدّثر : 31) اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے والی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور (Mobile (بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے۔ گوشت کھانے والے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا میسر ہے۔ چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہے جس کے پیش نظر لوگوں کا رزق بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو بارش کی کمی بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اس لیے نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پڑھتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاء جتنی اور اس کے بعد جتنی تو چاہتا ہے، تو اس ثناء کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اس بزرگی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے جو ثناء اور عظمت بندہ بیان کرتا ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کرنا چاہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نفع نہیں دے سکتا۔“ مسائل : 1۔ زمین و آسمان کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ 2۔ اللہ ہی رزق بڑھانے اور گھٹانے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : 58) 2۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سباء : 39) 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : 132) 4۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران : 37) 5۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : 20) 6۔ کتنے ہی چوپائے ایسے ہیں کہ تم انہیں رزق نہیں دیتے اللہ ہی ان کو رزق دینے والا ہے۔ (العنکبوت : 60) 7۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمہیں اور انھیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : 151)