فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
آسمانوں اور زمین کا بنانے والا جس نے تمہیں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی جوڑے بنائے اور وہی تمہیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : جس اللہ پر بھروسہ کرنا ہے اسی نے زمین و آسمان اور لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ فاطر کا لغوی معنٰی ہے پیدا کرنے والا اور کسی کام کو بالکل ابتدا سے شروع کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور اس کے بعد نسل انسانی کی افزائش کاسلسلہ جاری فرمایا۔ (النساء :1) اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کی خدمت کے لیے چوپائے پیدا کیے۔ ان میں بھی نر اور مادہ بنائے تاکہ ان کی افزائش کاسلسلہ جاری رہے۔ اسی نے جاندار اور غیر جاندار چیزیں پیدا فرمائی ہیں۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشابہت رکھتی ہو۔ وہ اپنی مخلوق کی ہر بات سنتا ہے اور اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ” لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ“ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ مخلوق میں کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہ عرش پر متمکّن ہے۔ جس طرح اس کی ذات کے لائق ہے۔ گویا کہ رفع مکانی کے لحاظ سے بھی کوئی چیز اس سے ارفع و اعلیٰ نہیں۔ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے اس کے دیکھنے کی طرح کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ہر بات سنتا ہے اس کے سننے کی طرح کوئی سن نہیں سکتا۔ اس کی مخلوق کا شمار نہیں وہ سب کی بولیاں سمجھتا اور سنتا ہے۔ جن و انس اور ملائکہ سب سے اعلیٰ مخلوق ہیں مگر ان میں بھی کسی کی یہ استعداد نہیں کہ بیک وقت وہ اپنے ہی ہم جنس افراد کی باتیں سمجھ سکیں اور سب کو دیکھ پائیں۔ یہ صرف اللہ ہی کی شان ہے جو اپنی مخلوق کو جانتا، ان کی بولیاں سمجھتا ہے اور ہر چیز کو ہر حالت میں دیکھتا ہے۔ اس لیے اس کا ارشاد ہے کہ اس کی ذات اور صفات کے ساتھ کسی چیز کی مثال نہ دی جائے۔ کیونکہ اس کی ذات اور صفات بے مثال ہیں۔ لیکن افسوس ! مشرک پھر بھی ایسی باتیں کرتے اور مثالیں دیتے ہیں۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ ا اللہ تعالیٰ سے بندے کو دور رکھنے کے لئے اپنے رب کے بارے میں اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے اور مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جا سکتا۔ اس مثال اور باطل عقیدے کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا ہے کہ اچھے بھلے، پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتیں کرنے والے جج، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر، اس پراپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ ڈی سی او ایک انسان ہے جو بیک وقت ایک ہی انسان کی بات سن اور سمجھ سکتا ہے کمزور آدمی اس تک اس لیے نہیں پہنچ سکتا کہ اس نے لوگوں کے درمیان چھوٹے بڑے کا امتیاز قائم کر رکھا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی ایسا ہے کہ اس نے امیر اور غریب چھوٹے اور بڑے کے درمیان امتیاز قائم کر رکھا ہے ؟ چھت قریب آنہیں سکتی اور انسان سیڑھی کے بغیر اس پر چڑھ نہیں سکتا کیا اللہ تعالیٰ کا بھی یہی معاملہ ہے؟ ( نعوذ باللہ من ذالک) مسائل : 1۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ 2۔ اللہ ہی نے انسانوں اور چوپاؤں کے جوڑے بنائے ہیں۔ 3۔ اللہ ہی انسانوں اور چوپاؤں کی افزائش کرنے والا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات لازوال اور بے مثال ہیں۔ 6۔ مخلوقات میں کوئی کسی اعتبار سے بھی اس جیسا نہیں۔ تفسیربالقرآن : اللہ ہر اعتبار سے سے لازوال اور بے مثال ہے : 1۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ کی ذات کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : 26 تا 27) 2۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہوجائے گی۔ (القصص : 88) 3۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : 26) 4۔ اللہ تعالیٰ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : 3) 5۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : 35) 6۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا صرف اسی کو پکارو (المومن : 65) 7۔ ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ پر توکل کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان : 58) 8۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ (آل عمران : 2) 9۔ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس کو نیند اور اونگھ نہیں آتی۔ (البقرۃ: 255)