سورة الزمر - آیت 69

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور لوگوں کے سامنے ان کے اعمال نامے لا کر رکھ دئیے جائیں گے، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کردیے جائیں گے لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت69سے70) ربط کلام : لوگوں کا اپنی اپنی جگہ سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہونا اور عدالت کبریٰ کا قیام۔ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ پہلے نفخہ کے بعد زمین و آسمانوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ( ابراہیم :48) زمین اس قدر چٹیل میدان ہوگی کہ کوئی اس پرنشیب و فراز نہیں ہوگا۔ (طہٰ: 106، 107) اس کے بعد اسرا فیل کو دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا حکم صادر ہوگا جونہی وہ صور پھونکے گا لوگ اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ قرآن مجید اور احادیث میں اس بات کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کو کس طرح میدان محشر میں اکٹھا کیا جائے گا۔ لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے ہوجائیں گے تو ملائکہ کو محشر کے میدان میں پہنچنے کا حکم جاری ہوگا۔ ملائکہ اور جبرائیل امین قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا :38) اسی اثناء میں رب ذوالجلال جلوہ افروز ہوں گے۔ پوری کی پوری زمین رب ذوالجلال کے جمال سے منور ہوجائے گی۔ لوگوں کے اعمال نامے ان تک پہنچ جائیں گے۔ جس سے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ حاضر کیے جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی پر رائی کے دانے برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی ہر کسی کے عمل کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ جو کچھ لوگ عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یعنی اعمال ناموں اور گواہوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلاواسطہ بھی سب کچھ معلوم ہوگا۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَال قیلَ لَہُ مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ ؟ قَالَ ذَاکَ یَوْمٌ یَنْزِلُ اللَّہُ تَعَالَی عَلَی کُرْسِیِّہِ یَئِطُّ کَمَا یَئِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِیدُ مِنْ تَضَایُقِہِ بِہِ وَہُوَ کَسَعَۃِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ) [ رواہ الدارمی : باب فِی شَأْنِ السَّاعَۃِ وَنُزُول الرَّبِّ تَعَالَی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا مقام محمود کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوں گے، اللہ کے عرش سے اس طرح آواز آئے گی جس طرح کہ نئے پالان سے آواز آتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عرش کی وسعت آسمانوں اور زمینوں کی وسعت کے کے برابر ہوگی۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن پوری کی پوری زمین اپنے رب کے نور سے منور ہوجائے گی۔ 2۔ قیامت کے دن ہر شخص کا اعمال نامہ اس تک پہنچ جائے گا۔ 3۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ اپنی اپنی شہادت پیش کریں گے۔ 4۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوپائے گی۔ 5۔ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ 6۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن: عدالت کبریٰ کا ایک منظر : 1۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس :54) 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر :69) 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا اجر دے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ:281) 4۔ ” اللہ“ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ :48) 5۔ ” اللہ“ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ :254) 6۔ اس دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء :47) 7۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : 41، 42) 8۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ (الزخرف :67)