سورة الزمر - آیت 10

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : عقل مند وہ ہے جو کفر و شرک اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچتارہے۔ اور دنیا کے مقابلے میں ایمان کو ترجیح دے اور ایمان کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو ہجرت کر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی عظمت اور اہمیت اجاگر فرمانے کے لیے نبی محترم (ﷺ) کو پے درپے سات مرتبہ لفظ ” قُلْ“ سے حکم دیا ہے۔ اور اس موقعہ پر آخر میں فرمایا : اے نبی (ﷺ) یہ بات بھی فرما دیں کہ علم والے اور بے علم یعنی موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے موحدین سے فرما دیں کہ کفار اور مشرکین سے ڈرنے کی بجائے صرف اپنے رب سے ڈرتے رہو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی۔ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں اچھائی اور بہتری ہے۔ اگر کہیں دین پر عمل کرنا مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کر جاؤ کیونکہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بے شک ہجرت کرنا آسان کام نہیں لیکن جو لوگ صبر سے مشکلات کا سامناکریں گے ان کے لیے قیامت کے دن بے حساب اجر ہوگا۔ حَسَنَۃٌ“ کا لفظ بھلائی، نیکی اور فائدہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہجرت کا لغوی معنٰی : ہجرت کا لغوی معنٰی ہے کسی چیز کو ترک کرنا، چھوڑ دینا۔ عرف عام میں دین کی خاطر کسی مقام کو چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ شریعت کے وسیع تر مفہوم میں ہر اس چیز کو چھوڑ دینا ہجرت ہے۔ جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔ (وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : باب المسلم من سلم المسلمون] ” مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔“ کن حالات میں ہجرت کا حکم ہے؟ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ مقصد حیات یعنی ایمان کے لیے ہر چیز قربان کردینا ہی اکمل ایمان کی نشانی ہے۔ ایسے ہی جذبات کا مندرجہ ذیل آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ﴾ [ العنکبوت :56] ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے بس تم میری بندگی کئے جاؤ۔“ اس آیت مبارکہ میں و اضح اشا رہ موجود ہے اگر مکے میں اللہ کی بند گی کرنا مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ۔ ملک خدا تنگ نیست۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے جہاں بھی تم اللہ کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ۔ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ایمان سے خالی دل ہجرت کی تکالیف اور مشکلات برداشت نہیں کرسکتا یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ (العنکبوت :26) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] مسائل: 1۔ مومن کو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرنا چاہیے۔ 2۔ آخرت میں نیکی کا بدلہ بہترین اور بے حساب اجر ہے۔ 3۔ جہاں دین پر عمل کرنا مشکل ہو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم ہے۔ 4۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: ہجرت کا حکم اور اجر : 1۔ ہجرت کا اجر و ثواب اور فضیلت۔ (آل عمران :195) 2۔ ہجرت کے دوران فوت ہونے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (النساء :100) 3۔ ہجرت کا دنیا میں اجر۔ (النحل : 41، 42) 4۔ ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا۔ (النساء : 97، 99)