سورة الزمر - آیت 3

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

خبردار دین خالص اللہ کا حق ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرر ہے ہیں، اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : الدّین کی بنیادی دعوت اور اس کا پہلا نقطہ۔ عبادت بھی خالص اور تابعداری بھی خالص : ارشاد ہوا کہ اللہ کی عبادت بھی خالص کرنی ہے اور تابعداری بھی خالصتاً“ اللہ“ ہی کی ہونی چاہیے۔ عبادت کی تین بڑی اقسام ہیں۔ اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ“” زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔“ 1 ۔زبانی عبادت کا مفہوم : زبان سے جو بات بھی نکالی جائے وہ اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنِ النَّبِیّ () قَالَ لاَ تَقُولُوا مَا شَاء اللَّہُ وَشَاءَ فُلاَنٌ وَلَکِنْ قُولُوا مَا شَاء اللَّہُ ثُمَّ شَاءَ فُلاَنٌ)[ رواہ ابوداود : باب لاَ یُقَالُ خَبُثَتْ نَفْسِی] ” حضرت حذیفہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ کہو جو اللہ چاہے پھر جو فلاں چاہے۔“ 2 ۔بدنی عبادات : بدنی عبادات میں نماز، روزہ، حج اور لوگوں کی خدمت کرنا شامل ہے۔ بشرطیکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی شامل نہ ہو۔ کیونکہ نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے۔ (عِنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ)[ مشکوۃ المصابیح : باب کتاب الامارۃ والقضاء] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں۔“ 3 ۔مالی عبادات : تَشٰھُدْ“ میں مالی عبادت کو ” الطَّیِّبَاتُ“ کہا گیا ہے۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ مال پاک ہو اور حلال طریقہ سے کمایا گیا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ صدقہ کرتے وقت صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ خرچ کرنے کا طریقہ اور مقام بھی شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَیُّھَاالنَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿یَاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ﴾ وَقَالَ ﴿یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ﴾) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : لوگو ! اللہ پاک ہے ا ورپاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال کھاؤ۔“ شرکیہ مقام پر صدقہ کرنے سے بچنا چاہیے : (حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَاکِ (رض) قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ () أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَیالنَّبِیَّ () فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ () ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداوٗد : باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کی نہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ مسافر مکھی نذرانہ کرنے کی وجہ سے جہنم رسید ہوا : (عَنْ طَارِقِ بْنِ شَہَابٍ (رض) أنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَالَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ قَالُوْا وَکَیْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلٰی قَوْمٍ لَہُمْ صَنَمٌ لَا یَجُوْزُہٗ أحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّبَ لَہٗ شَیئًا، فَقَالُوْا لأحَدِہِمَا قَرِّبْ، قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْئٌ أُقَرِّبُ، قَالُوْا لَہٗ قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ، فَدَخَلَ النَّارَوَقَالُوْا للآخَرِقَرِّبْ، قَالَ مَا کُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَیْءًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوْا عُنَقَہٗ، فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ )[ رواہ أحمد : مسند طارق بن شہاب ] ” حضرت طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا ایک آدمی مکھی کا نذرانے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور دوسر امکھی کے نذرانہ کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول ! وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی ایک بت پرست قوم کے پاس سے گزرے جو بتوں کے نام نذرانہ دیے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے ان دونوں میں سے ایک کو کہا کوئی نذرانہ پیش کرو۔ اس نے کہا میرے پاس نذرانے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا ایک مکھی ہی نذرانہ دے دو۔ اس نے ایک مکھی کا نذرانہ دے دیا۔ اس پر انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اس وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا۔ انہوں نے دوسرے سے بھی نذرانہ دینے کے لیے کہا۔ اس نے جواب دیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نذرانہ نہیں دوں گا۔ انہوں نے اس کی گردن اڑا دی تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ مشرک ” اللہ“ کے حکم کو نہیں مانتا : ہر دور کے مشرک کی یہ عادت اور عبادت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور اس کے حکم کے مطابق کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے کرتا اور دوسروں کو اس میں شریک کرتا ہے۔ بے شمار کلمہ پڑھنے والے مشرک اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدہ اور طریقہ کے مطابق دوسروں کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں۔ مسجدوں، مدرسوں اور غریبوں پر صدقے کرتے ہیں اور مزارات پر بھی خیرات کرتے ہیں۔ کافر قبروں، بتوں، چاند، سورج اور بیشمار چیزوں کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں اور بت خانوں پر خرچ بھی کرتے ہیں۔ مشرکین کے دو گروہ : مشرکین کے ہمیشہ سے دو گروہ رہے ہیں۔ جو کسی نبی کا کلمہ نہیں پڑھتے ان کا عقیدہ ہے کہ چاند، سورج اور ستارے ” اللہ“ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ لہٰذا ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی حرمت اور واسطے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا زیادہ ثواب اور اقرب سمجھتے ہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی نبی کا کلمہ پڑھنے والے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت سے خوش ہو کر انہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کی روحوں کے وسیلے اور حرمت سے مانگتے ہیں۔ یہی بات بت پرست کہتے ہیں کہ ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ بت کے تصور سے ” اللہ“ کی عبادت کرنے میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے یہی ان لوگوں کا عقیدہ اور طریقہ ہے جو تصور شیخ کے قائل اور فاعل ہیں۔ اس بارے میں بے شمار لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں اور ان کی ردّ نہیں کرتا۔ قرآن مجید اس مقام پر اسی عقیدہ کی نفی کررہا ہے کہ جب ان لوگوں کو بلاواسطہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے۔ ہم تو انہیں صرف وسیلہ بناتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں۔ پھر زندہ اور مردہ بزرگوں کے بارے میں من گھڑت کرامتیں بناتے اور سناتے ہیں۔ ایسا عقیدہ اور طریقہ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا کیونکہ یہ لوگ اپنے عقیدہ، طریقہ اور پروپیگنڈہ میں جھوٹے اور اللہ تعالیٰ کے ناشکرے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ مشرک کو ہدایت اس لیے حاصل نہیں ہوتی کیونکہ یہ شرک کو دین سمجھتا ہے اور اس پر اصرار اور تکرار کرتا ہے۔ مشرک کیوں جھوٹے ہیں : 1 ۔اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنی خدائی میں کسی کو شریک نہیں کیا۔2 ۔مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو اختیار ات دے رکھے ہیں۔3 ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور مجھ ہی سے مانگو۔4 ۔مشرک نہ اللہ کی خالص عبادت کرتا ہے اور نہ ہی اس کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس سے مانگتا ہے۔ 5 ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اپنے سامنے جھکنے اور صرف اپنی ذات سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔6 ۔مشرک ناشکرا ہوتا ہے اس لیے اللہ کا شکر گزار ہونے اور صرف اس سے مانگنے کی بجائے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے توحید شکر ہے اور شرک ناشکری ہے۔ توحید سچائی ہے اور شرک کذب بیانی ہے۔ وسیلے کے نقصانات : خالق و مخلوق کے درمیان وسیلے اور حرمت کے حوالے سے عیسائیوں کو گمراہ کرنے کے لیے پوپ نے یہ تصور دیا۔ کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے واسطہ کی ضرورت ہے اسی نظریے کی بدولت پادری نے جائیدادیں بنائیں لوگوں کی عزتوں پر ڈاکے ڈالے اور انسان پر انسان کی خدائی قائم کی۔ بدقسمتی سے بزرگوں کی محبت و عقیدت کے نام پر مسلمانوں میں بھی عقیدہ عام کردیا گیا اور اس کا نتیجہ نکلا کہ چند پاک باز لوگوں کو چھوڑ کر پیروں اور گدی نشینوں نے کتنی بیٹیوں کو بے آبرو کیا۔ سینکڑوں مربعے زمین اور کروڑوں کی جائیدادیں بنائیں۔ اجازت تو اس بات کی تھی کہ زندہ بزرگ سے دعا کروائی جاسکتی ہے مگر غالب اکثریت نے اس کو کاروبار بنا لیا ہے اور بزرگوں کے فوت ہونے کے بعد ان کی قبریں زیارت گاہ نہیں تجارت کے اڈے بن چکی ہیں۔ جو لوگ سالہا سال اپنے ماں باپ کی قبر پر نہیں جاتے وہ ہزاروں روپے خرچ کر کے مزارات پر ایمان اور مال ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ رحیم و کریم مالک نے اپنے تک پہنچنے کے لیے گناہ گاروں کی جھجک کو اتنے مؤثر اور دلنشیں انداز میں دور فرمایا ہے کہ اس کے بعد کسی بہانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بندے کو خالق سے دور رکھنے کے گھٹیا بہانے : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾[ قٓ:16] ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ہم ان سے واقف ہیں اور اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔“ بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھنے کے لئے یہ گھٹیا اور سطحی تصور دیتے ہوئے، اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی او سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے مکان کی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتیں کرنے والے جج، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف ماہر وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر اور دانشور حضرات اس پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ حالانکہ ذرا غور کیا جائے۔ کہ جس مدفون بزرگ کا وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ زندگی اور ان کے فوت ہونے کے بعدمیں کتنا فرق ہے؟ 1۔ بزرگ بیمار ہوئے ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت حاصل نہ کرسکے۔ 2۔ فوت ہوئے تو گھر میں میّت پڑی ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ وبکا کرنے والے بھائیوں اور مریدوں کو تسلی نہیں دے سکتے۔ 3۔ شرم و حیا کے مالک ہونے کے باوجود نہ استنجا کرنے کی سکت ہے اور نہ غسل کرنے کی ہمت۔ 4۔ اپنی زندگی میں اپنا مزار بنوانے والے بھی چل کر اپنی قبر تک نہ پہنچ سکے۔ 5۔ جو زندگی میں صرف ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے؟ 6۔ جو خوداولاد سے محروم تھے مثال کے طور پر حضرت علی ہجویری ایک سے زائد شادی کروانے کے باوجود اولاد سے محروم رہے وہ دوسروں کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ 7۔ جو زندگی میں گہری نیند یا کسی بیماری کی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے۔ موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوگئے ؟ 8۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے قبر کی منوں مٹی اور مضبوط دیواروں کے پیچھے کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ 9۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ توہین آمیز اور مضحکہ خیز مثال: واعظ کا یہ کہنا ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس حد تک تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں مگر غور فرمائیں کہ چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ قریب نہیں آ سکتی اس لیے اس پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی قدرت و سطوت تو ہر جگہ موجود ہے اور وہ اپنے علم اور اختیارات کے ذریعے سب سے زیادہ انسان کے قریب حتیٰ کے دل اور شہ رگ پر اس کا اختیار ہے یہاں تو کسی وسیلے و سفا رش اور سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ خالق کائنات کے لیے یہ مثالیں اور تشبیہ دینا اس کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾ [ النحل :74] ” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو۔“ تفسیر بالقرآن: سفارش کی حیثیت اور حقیقت : 1۔ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ:255) 2۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہیں آئے گی۔ (البقرۃ:254) 3۔ مجرموں کو کسی کی سفارش کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر :48) 4۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن :18) 5۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام :51) 6۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الرّوم :13) 7۔ مرنے والوں کو معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل :21)