سورة الصافات - آیت 26

بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آج یہ اپنے آپ اور ایک دوسرے کو حوالے کیے جا رہے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت26سے34) ربط کلام : جب قیامت کے دن تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا توقیامت کو جھٹلانے والوں سے سوال ہوگا۔ جب حساب و کتاب کے بعد مجرمین کا فیصلہ ہوچکا ہوگا کہ انہیں جہنم میں داخل کردیا جائے۔ ملائکہ انہیں ہانک کر جہنم کی طرف لے جا رہے ہونگے تو ذات کبریاء کی طرف سے حکم ہوگا کہ انہیں چند لمحے ٹھہرایا جائے۔ جہنمی کہیں گے کہ شاید ہمیں کوئی رعایت دی جارہی ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے ہوں گے کہ رب ذوالجلال ارشاد فرمائیں گے کہ تمہیں کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ اگر ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہو تو کرو ! اس وقت حالت یہ ہوگی کہ پیر اور ان کے مرید، لیڈر اور ان کے ور کر، عابد، اور ان کے معبود علماء سو اور ان کے مقتدی سب کے سب فرمانبرداری کا مظاہرہ کررہے ہوں گے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد سنتے ہی یہ لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ آج ہماری مدد کیوں نہیں کرتے ہو؟ دنیا میں ہمارے پاس آکر بڑے بڑے دعوے کرتے اور ہمیں امیدیں دلایا اور کہا کرتے تھے کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے خیر خواہ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے نجات دہندہ ہوں گے۔ بالخصوص جھوٹے پیر اور برے علماء یہ بات کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ مرشد کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور مرشد ہی قیامت کے دن اپنے مریدوں کی نجات کا ذمہ دار ہوگا۔ اس امید کی بنیاد پر مرید اپنے پیروں کو ور کر اپنے لیڈروں کو کہیں گے کہ آج ہماری چارہ جوئی کرو کیونکہ تم دنیا میں ہماری نجات کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ عربی زبان میں ” یَمِیْنٌ“ کے کئی معانی ہیں جن میں مشہور تین ہیں 1۔” یَمِیْنِ“ کا معنٰی دایاں ہاتھ یا جانب 2 ۔قسم 3 ۔غلام۔ گویا کہ جہنمی کہیں گے کہ ہم تو کسی نہ کسی طرح تمہارے غلام یعنی ماتحت تھے اور تم ہی نے قسمیں اٹھا، اٹھا کر ہمیں گمراہ کیا تھا اب ہماری چارہ جوئی کرو! مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جاچکی ہے موقع کی منا سبت سے یہاں پھر مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ 1۔” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حائل ہوتی ہو یا اسے حائل کرلیا جائے۔ اس میں وہ بت اور مجسمّے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتا ہے اور ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انہیں بھی جہنم میں جھونک دیا جائے گا تاکہ انہیں متبرکسمجھنے والے اپنی آنکھوں سے ان کا حشر دیکھ سکیں۔ یہ بت جہنم کے انگارے بن کر انکی سزا میں اضافہ کا باعث ثابت ہوں گے۔ 2 ۔” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد ہر قسم کے گمراہ پیر، حکمران، لیڈر اور مرشد ہیں جنہوں نے اپنے چاہنے والوں کو راہ راست سے گمراہ کیا یا گمراہی کا ماحول پیدا کیا۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور بزرگان دین جہنم سے محفوظ ہوں گے۔ بے شک لوگوں نے ان کے نام سے شرک کیا اور بدعات ورسومات رائج کیں۔ یہ بزرگ اس لیے جہنم سے دور رکھے جائیں گے کیونکہ وہ لوگوں کو شرک و بدعات سے منع کرتے تھے۔ جہنم کی ہولناکیاں دیکھ کر پیر اپنے مریدوں، عابد اپنے معبودوں اور لیڈر اپنے ور کروں، علماء اپنے مقتدیوں کو کہیں گے تمہاری گمراہی میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں۔ کیونکہ تم خود ہی ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ تمہیں گمراہ کرنے میں ہمیں کوئی اختیارنہ تھا۔ تم تو خود ہی اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب پر ہمارے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ ہم مجرموں کو عذاب کا ذائقہ چکھاتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ ہم نے تمہیں اس طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ تھے۔ اس طرح عذاب پانے والے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں کو اس طرح ہی سزا دیتے ہیں۔ مسائل: 1۔ جہنمیوں کو ایک جگہ جمع کرکے آخری مرتبہ سوال ہوگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ 2۔ جہنمی اپنے گناہوں کی ذمہ داری اپنے راہنماؤں پر عائد کریں گے۔ 3۔ جہنمیوں کے پیشوا گناہوں کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: محشر کے میدان میں جہنمیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تکرار کرنا : 1۔ قیامت کے دن معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (یونس :28) 2۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کے معبود انکار کریں گے۔ (النحل :86) 3۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودان کو دیکھ کر کہیں گے ہمیں یہ گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص :63) 4۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 5۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے الٰہی انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف :38)